کالمز

نجی ادارے اور ہنزہ کی غیر آباد زمینوں کی آباد کاری

یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ  ادارے، خواہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ان اداروں میں کام کرنے والے بھی انسان ہیں۔ یہ ادارے اور ان میں کام کرنے والے لوگ اپنی بساط  و استعداد کے مطابق اور اپنے اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوسرے بے شمار انسانوں اور انسانی معاشروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اداروں ان کے اہلکاروں سے کوتاہیاں اور فروگزاشتیں بھی ہو سکتی ہیں۔اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ ادارے نہ مقدس ہوتے ہیں اور نہ پرفیکٹ  ہوتے ہیں۔ تاہم، معاشرے کے ذمے دار افراد کی حیثیت سے یہ ہمارا اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے کہ ہم اداروں کے اچھے اور فائدہ بخش کاموں کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہ لیں اور موقعے کی مناسبت سے اصلاح کار اور اداروں کے کام کو بہتر اور موثر بنانے کے لئے تعمیری تنقید بھی کی جائے۔ یہ آج کے ترقی یافتہ اور جمہوری ملکوں اور قوموں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اداروں کو استحکام دینے اور انہیں موثر بنانے کے لئے مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اس ادارتی استحکام اور اجتماعی ترقی کے صحتمند رجحانات نے ترقی یافتہ دنیا کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے۔
      آج کل سوشل میڈیا میں بعض تحریریں منظر عام پر آئی ہیں جن کے مطابق آغاخان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) ہنزہ میں خاطر خواہ کام نہ کر سکا۔ ممکن ہے کہ مذکورہ ادارے سے اس ضمن میں کوتاہیاں بھی ہوئی ہوں گی، تاہم، اس ادارے اور دیگر اداروں نے بساط بھر کوشش ہے، اپنے کاموں کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا ہے اور عوام کو خاطر خواہ فائدہ بھی پہنچایا ہے۔ جہاں تک ہنزہ میں بنجر زمینیں آباد نہ ہونے کی بات ہے تو اس کا  سبب ادارے کی نااہلی سے کہیں زیادہ خود عوام کی باہمی نا اتفاقی ہے۔
       مثال کے طور پر، معتبر اطلاعات کے مطابق، کم بیش تین عشروں پہلے اے۔ کے۔ آر۔ ایس۔پی نے زیریں شیناکی کی مشترکہ غیر آباد زمین ” باییس ” ،جو حسین آباد کے اوپر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، کو آباد کرنے کی آفر کی تھی اور اس کی آباد کاری کے لئے خطیر رقم بھی مختص کی گئی تھی لیکن حسین آباد، مایوں اور خانہ آباد کی عوام کی نا اتفاقی کے باعث وہ پروجیکٹ رو بہ عمل نہ لایا سکا اور موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ ایسی مثالیں مرکزی اور بائی ہنزہ کے حوالے بھی موجود ہیں جبکہ ہنزہ کے برعکس اس کی ہمسایہ وادی نگر میں اسی اے۔ کے۔ آر۔ ایس۔ پی کی رہنمائی میں عوام کے اتفاق سے دریا کے کنارے سے پہاڑ کی چوٹی تک غیر آباد زمینوں کو سیراب کیا گیا اور آج ان زمینوں سے خوف استفادہ کیا جا رہا ہے۔ 
     بہر صورت،اگرچہ ادارے پرفیکٹ نہیں ہوتے لیکن اداروں کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا بھی عوام کا اخلاقی فریضہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں” ہنرش نیز بگو” کے مقولے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز ہمیں خود احتسابی کے اصول (self- accountability) کے تحت اپنی غلطیوں اور فروگزاشتوں کو دور کرنے، اپنی اصلاح کرنے اور مفروضوں کی بجائے معروضی حقائق کو پیش نظر رکھ کر رائے دینے کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button