کالمز

موسمیاتی تبدیلی کے اسباب، خطرات واقدامات

گلگت بلتستان میں گزشتہ سال کی طرح امسال بھی بارشوں ، آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اور دریاؤں و ندی نالوں میں  طغیانی  اور لینڈسلائیڈنگ سے بڑی تباہی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ آفت کا رخ  وادی یاسین کی طرف ہے جہاں پرسیلاب کے باعث  گاؤں سندی، قرقلتی، طاوس، سلطان آباد ، نازبر، ہندور، اوملست، درکوت، بجایوٹ اور مضافاتی علاقوں میں لوگوں کے رہائشی مکانات، مویشی خانے، درخت، کھڑی فصلیں، واٹر چینلز، رابطہ سڑکیں، پل اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ ضلع دیامر اور ہنزہ کے بعض علاقے بھی سیلاب کی زد میں آنے کی اطلاعات ہیں ۔بارشوں کے باعث پہاڑی تودوں کے گرنے سے شاہراہ قراقرم اور شاہراہ  بلتستان سمیت دیگر رابطہ سڑکوں  پر ٹریفک متاثر رہی جس سے مسافروں کو خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 

خطے میں اسی طرح کی صورتحال گزشتہ سال بھی دیکھنے میں آئی اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے موصولہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ برس وقوع پذیر ہونے والی قدرتی آفت کے نتیجے میں خطہ بھر میں مجموعی طور پر 21 انسانی جانیں ضائع ہوئیں جبکہ نصف درجن کے قریب لوگ مختلف حادثات میں زخمی ہوئے۔ بارش، سیلاب اور دریائی کٹاؤ کے سبب گزشتہ سال ساڑھے پانچ ہزار کنال زرعی اراضی،61 پل اور13 رابطہ سڑکیں متاثر ہوئیں۔ اسی طرح مجموعی طور پر 458 گھرمکمل تباہ اور267 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ان تمام نقصانات کا مالی تخمینہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں میں لگایا جاسکتا ہے۔

رواں سال تا دم تحریر 17 مقامات پر قدرتی آفات کے ایونٹس وقوع پذیر ہوئے جن میں مجموعی طور پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں ۔ 14 گھرسیلاب ریلوں کی زد میں آکر مکمل طور پر منہدم، آٹھ کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ندی نالوں میں سیلاب اور طغیانی کے باعث دو عدد بجلی گھر، نو واٹر چینلز، ایک عدد پل اور آدھا کلومیٹر سڑک متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔تاہم محکمہ موسمیات کی جانب سےبدھ تک بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے چنانچہ ممکنہ سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ کا خطرہ  اب بھی موجود ہے۔

 گزشتہ برس یاسین سمیت گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں لوگوں کی پکی ہوئی فصلیں یا دوران کٹائی شدید بارشوں کی نذر ہوکر استعمال کے قابل نہیں رہیں۔ نتیجاً علاقے میں گندم کی  اس قدرقلت ہوئی کہ  کاشتکاروں کوسیزن میں بیج بونے کے لئے بھی گندم کے حصول کے لئے دربدر ہونا پڑا۔  رواں سال بھی صورتحال گزشتہ سال سے مختلف نہیں،جس میں سیلاب کے باعث زیادہ تر نقصان فصلوں، درخت، پانی کے ذخائر، واٹر چینلز وغیرہ کوہوا ہے جس کا براہ راست تعلق عوام کے ذریعہ معاش سے ہے۔چنانچہ حکومت کو متاثرین کے لئے خیمہ بستوں اور خوراک کے وقتی انتظام کے علاوہ  عوام کے ذریعہ معاش کے لئے حصول میں مدد کے لئے بھی مناسب حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

 سائنس دان ان بے ترتیب بارشوں اور سیلابی صورتحال کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں جس سے دنیا کے بیشتر ممالک بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہونے کی وجہ سے یہاں پر سالہال سال قدرتی آفت کے خطرات موجود رہتے ہیں جو سندھ کے ساحل سے لیکر ہمالیہ کی پہاڑیوں  کے دامن میں بسنے والے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے چند واضح اثرات میں درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشئرز کا پگھلاؤ، سمندی و دریائی پانی کے بہاؤ میں اضافہ، بلاترتیب بارشیں اور برفباری، فصلوں کی پیداوار میں کمی،سیلابی ریلے، آندھی، طوفان،پانی کی قلت وغیرہ  شامل ہیں۔ اس ضمن میں کچھ انسانی طور طریقے، معمولات، استعمالات اور خواہشات بھی قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا  کر رہی ہیں جن میں قدرتی وسائل، مثلاً پانی، خوراک، لکڑی اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کا ضیاع،ماحولیاتی آلودگی مثلاً   گندگی اور کوڑا کا پھیلاؤ  وغیرہ۔ 

سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مکمل تدارک تو ممکن نہیں البتہ حکومتی اور عوامی سطح پر چند ضروری اقدامات کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے سبب وقوع پذیر ہونے والی قدرتی آفات سے انسانی جان ومال کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر اقدامات میں ماحولیات کے قوانین پر عمل کروانا، اعلیٰ تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کرنا، ماہر افرادی قوت پیدا کرنا،خطرات سے دوچار آبادیوں میں ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنا،صنعتوں سے زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹائو کو روکنا اور نئے جنگلات لگانا، کسانوں اور کاشتکاروں کی مالی وتکنیکی معاونت،شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانے والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اقدامات کرنا اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عوامی سطح پر احساسِ ذمہ داری جگانے کے لئےتربیتی پروگرامز ،میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم  وغیرہ شامل ہیں۔

  عوام سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات میں پلاسٹک کے تھلوں اور اس سے بنی دوسری اشیاء کے استعمال میں کمی، پانی کو ضائع ہونے سے روکنا اور پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنا،زیادہ سے زیادہ درخت اور جنگل اگانا، گندگی اور کوڑا کرکٹ پھیلانے سے گریز کرنا، قابلِ تلف چیزوں کے استعمال سے پرہیز وغیرہ شامل ہیں۔

  علاوہ ازیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری اور امدادی اداروں کی بھی   پائیدار ترقیاتی منصوبوں اور اقدامات کے ذریعے گلگت بلتستان حکومت اور عوام سے   تعاون و مدد  کی ضرورت ہے تاکہ مقامی اور عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی اس خطےکی خوبصورتی کی حفاظت اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button