کالمز

معاشی و معاشرتی نظام اور وقت کے تقاضے

اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے انتہاؤں کے اسیروں کےلئے ضروری ہے کہ ڈارون کا نظریہ بقاء پر ضرور غور کریں-

ڈارون نے جب جانوروں اور پودوں کی مختلف نسلوں کی بقاء اور معدوم ہونے کے فطری تقاضوں کا مطالعہ کیا تو ان پر Sirvival of the fittest کا بنیادی اصول آشکار ہوا-

یہ اصول انسانی معاشرہ اور اس پر مصلت نظریات پر بھی کارگر ہے- ڈارون نے اس اصول کو گویا اس طرح بیان کیا :

"Intelligent that survived. It is the one that is most adoptable to change. It is not the strongest of the species that survives nor the most”.

"یعنی فطرت میں اپنی بقاء کےلئے کسی نسل کا بہت طاقتور یا ہوشیار ہونا ضروری نہیں- کیونکہ یہ دونوں خصوصیات رکھنے والی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں، صرف وہ نسلیں قائم رہتی ہیں، جو ماحول کے ساتھ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں”۔

اگر ہم اس اصول کو مدنظر رکھیں، تو ہمیں اپنے اپنے اشتراکی اور سرمایہ داری نظریات کے انتہاہ پر مبنی اہداف کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ایک چھوٹے سے علاقے کو ان نظریات کا تختہ مشق بنانے کی بجائے ہمیں ماحول اور وقت کے حساب سے ایسے نظام کو اپنانے کی ضرورت تھی، جس کی بدولت ہم علمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے نہ صرف ترقی کرسکھیں بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے میں کسی حد تک طبقاتی نظام کی بھی حوصلہ شکنی ممکن ہو، جس میں ہم نے حیران کن حد تک کامیابی حاصل کی ہے-

اگر ہم ان روایتی نظاموں کا تاریخی لحاظ سے ایک سرسری جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اشتراکی نظریات بھی اپنے بیش بہا قربانیوں کے باوجود ابھی تک ایک دیرپا متوازن نظام قائم کرنے میں ناکام رہا اور ابھی تک یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں نظریاتی حد تک ہی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے- یہی حال سرمایہ دارانہ نظام کا بھی ہے۔ روایتی سامراجی نظام ( زر، چرچ اور حکمرانوں) میں دراڑ اور واضع تبدیلی کا آغاز پندھرویں صدی کی یورپ کے تعلیمی انقلاب اور ریناسنس تحریک کے ساتھ ہی ہوا- آٹھارویں صدی کے انڈسٹریل ریولوشن کے ساتھ ہی دنیا کے اندر سائنسی علوم کی بدولت زبردست انقلاب برپا ہوا- مارکسیزم اور دوسرے اشتراکی نظریات کی بدولت لوگوں میں روایتی طاقت کے ستونوں اور سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی کےلئے جہدوجہد ا پنے عروج کو پہنچا- اس کے بعد دنیا عملاً دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام- گویا اگر ہم عملاً دیکھیں تو یہ مارکسی نظریات اور اس پر مبنی جہدوجہد ہی تھا جس نے سامراج کو روایتی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اصلاحات پر مجبور کر دیا- دونوں نظاموں کے درمیان پھر بقاء کی جنگ چھڑ گئی- ژار روس کے خلاف کامیاب بالشیوک انقلاب کے ساتھ ہی پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور پھر یہودیوں اور ان سے منسلک سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف طبل جنگ بجا کر ہٹلر نے دنیا کو دوسری جنگ عظیم میں جھونک دیا، جس نے تاریخ انسانی میں دنیا کو اس قدر نقصان سے دوچار کیا کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی- انسانی معاشرہ اور ساخت ، سرکولیشن آف منی، آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ معاشی ضرورتوں کے حساب سے اشتراکی تظام میں موجود کمزوریاں وقت کے ساتھ ساتھ کھل کر سامنے آگئی اور سویت یونین کی تقسیم کے ساتھ ہی یہ نظام زمین بوس ہوگیا-

اگر تقابلے سے دیکھا جائے تو دونوں نظام سرے سے نہ ہی غلط ہیں اور نہ ہی صحح- بلکہ یہ وقت اور ماحول ہی طے کرتا ہے کہ سامنے انسانی معاشرہ کیسا ہے اور کیسا نظام میسر عوامل میں بہتر رہے گا۔ دونوں انتہاؤں پر مبنی نظاموں میں ماحول اور وقت کے حساب سے تبدیلیوں نے نسل انسانی پر مثبت اثرات مرتب کئے۔ جس کی مثال ہم ناروے، جرمنی اور چین کی کامیاب ترقیاتی ماڈلز سے لے سکتے ہیں-

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button