شاہراہ بلتستان اور شاہراہ قراقرم کی زبوں حالی اور سیاحت کا مستقبل
کہتے ہیں کہ روڈ نیٹ ورک سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔بہتر سڑکوں کے ہونے سے نقل و حمل میں اضافہ ہونے کے ساتھ ملک کی جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر غریب، کمزورطبقے اور دیہاتوں کو دیگر علاقوں، اسکولوں اور بازاروں سے جوڑتی ہے اور سماجی اور اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کام دیہی علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ انفرااسٹرکچر جیسے معیاری سڑکیں، غربت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
گلگت بلتستان کو قدرت نے سب کچھ عطا کر رکھا ہے۔ لیکن نظام کی خرابی، سیاسی عدم استحکام، بیوروکریسی راج اور افسر شاہی، متنازعہ آئینی حیثیت کے باوجود بین الاقوامی قوانین کی پامالی نے جہاں اس علاقے کو سیاسی، معاشی اور فکری طور پربلکل ہی مفلوج کرکے رکھا ہوا ہے وہی غیر معیاری تعیمر کے باعث شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بلتستان بھی عوام اور سیاحوں کیلئے پہلے سے زیادہ عذابناک اور خطرناک بن چکے ہیں۔
یوں تو دعوی کیا جاتا تھا کہ شاہراہ بلتستان کی تعمیر کے بعد عوام کو سفری سہولیات میں آسانیاں میسر ہونگیں اور سفر کا دورانیہ بھی کم ہوگیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شاہراہ کےطرز تعمیر اور نگرانی کے طریقے کار پر معاشرے میں مسلسل سوال اُٹھ رہا ہے اور بدقسمی سے سوال اٹھانے اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو قانون کا ناجائز اُٹھاتے ہوئے طاقت کے بول بوتے پر زدوکوب کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی تلخ حقیقت ہے کہ شاہراہ بلتستان کو عالمی معیار اور نقشے کے مطابق بنانے کے بجائے ایف ڈبلیو او نے اپنی مرضی سے بنایا ، پہاڑوں کو توڑنے کیلئے جدید سائنسی طریقہ اپنانے کے بجائے بلاسٹنگ کا طریقہ اپنایا جس کی وجہ سے پہاڑ شکست و ریخت کا شکار ہیں اور معمولی بارش کے بعد بھی چٹان اور زمینی تودے سرک کر نیچے آجاتے ہیں۔ خطرناک موڑ آج بھی نئے آنے والوں کیلئے موت کا کنواں ثابت ہورہے ہیں ۔ المیہ ہے کہ خطرناک موڑوں پر نہ کسی قسم کا اشارہ یا دور سے نظر آنے والا آئینہ لگایا گیا ہے اور نہ ہی دریا کی طرف کسی قسم کا سیف گارڈ نظر آتا ہے ۔
گلگت بلتستان میں ایک طرف سیاحت کے فروغ کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے حکومتی بلند وبانگ دعوے ہیں اور دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بلتستان پر نئے آنے والوں کیلئے کسی قسم کے احتیاطی تدابیر کے بورڈز تک نصب نہیں ہیں جوعموماً اہم شاہراہوں پر حادثات سے بچنے کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔
اسی طرح دونوں اہم شاہراہ پر کسی قسم کا ایمرجنسی سنٹر نظر آتا ہے اور نہ ہی موبائل سنگل کیلئے ٹاورزلگے ہوئے ہیں۔
پہاڑی تودوں کا گرنا شاہراہ بلتستان پر معمول کی بات بن چکی ہے جس کی اصل وجہ جیسے اوپر لکھاگیا ہے، غیر ضروری بلاسٹینگ اور ٹنلز نقشے میں ہونے کے باوجود نہ بنانا ہے۔ یوں شاہراہ بلتستان تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک شاہراہ بن گیا ہے جو مسلسل انسانوں جانوں کو نگل رہا لیکن ذمہ دار کون ہے کسی کو معلوم نہیں ۔
بلتستان سے تعلق رکھنے والا ایک سابق اہم سرکاری عہدیدار سے دوران سفر ملاقات ہوئی۔ اُنکا کہنا تھا کہ یہ بلتستان والوں کی بدقسمتی ہے کہ اس سڑک کو نقشے سے ہٹ کر بناتے دیکھ کر بھی کسی نے کچھ نہیں کہا بلکہ ایف ڈبیلو او کے آگے جی اچھا کرتے رہے۔ اُنکا کہنا تھا جو سڑک آج بنی ہے اس سے پہلے والا ہی ٹھیک تھا کیونکہ کم ازکم معمولی بارش پر سڑک بند نہیں ہوا کرتاتھا۔ یہی حال شاہراہ قراقرم کا بھی ہے۔
حالیہ لینڈسلایڈینگ کے دوران بلتستان سے آتے ہوئے پانچ محرم کو شام کے تقریباً 5 بجے روندو چیک پوسٹ پر بتایا کہ شنھگوس ملہ پہ کے مقام پرلینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے روڈ بند ہے تمام مسافرین جن میں سو سے زائد سیاحوں کی گاڑیاں شامل تھے، کو پولیس کی جانب سے روندو ستک نالہ پر رُک جانے کہا گیا۔رات گئے ستک روندو سے شنگھوس پہنچا تو دیکھا بارش کی وجہ سے اوپر سے معمولی نوعیت کا ملبہ آیا ہواہے اور گاڑیوں کی طویل قطار لگی ہوئی ہے۔ اس مقام سے چند مسافت کی دوری پر ایف ڈبلیو او کا کیمپ نظر آرہا تھا، لیکن انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ موقع پر موجود رہیں، پس لوکل مسافرین جو بسوں میں سوار تھے،نے اپنی مدد آپ کے تحت پہلے سیاحوں کی سو سے زائد چھوٹی گاڑیوں کوپار کروایا۔ لیکن بسیں اور ٹرکوں کیلئے سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے نکلنا مشکل ہوگیا اور بڑی مشکل سے رات بارہ بجے انکو احساس ہوا کہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور اُنہوں نے ملبہ ہٹا کر بڑی گاڑیوں کیلئے راستہ صاف کیا۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ بلتستان میں سیاحت کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے! کیا وہ تمام لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں پھنس گئے تھے دوبارہ سیاحت کی غرض سے آنے کی ہمت کریں گے؟ بلکل نہیں! بلکہ اکثر سیاحوں کا یہی کہنا تھا کہ اس خوبصورت علاقے میں سہولیات کا شدید فقدان ہے آئندہ جان پر کھیل کر کبھی یہاں نہیں آئیں گے۔
اسی طرح تتہ پانی اور سسی کے مقام پر بھی یہی صورت حال تھا۔ معمولی بارش کے بعد ملبہ آنے سے کئی مقامات پر روڈ بند تھا اور ایف ڈبلیو او نے بجائے دونوں اطراف کے راستے خالی کرنے کے صرف ایک گاڑی گزارے کا راستہ بنایا ہوا تھا جس کی وجہ سے آنے جانے والے ہزاروں کی تعداد میں سیاح تتہ پانی سے گورنر فارم تک دونوں اطراف میں بُری طرح پھنسے ہوے تھے۔ لیکن اس پوری پٹی پر نہ کوئی سیکورٹی اہلکار نظر آیا نہ ایف ڈبلیو او والے۔
یہاں بھی جب راقم نے سیاحوں سے پوچھا تو یہی شکوہ تھا کہ اس خوبصورت علاقے کی سڑکوں کو قبرستان بنایا ہوا ہے،شاہراہوں پر انٹرنیٹ تو بہت دور کی کی بات موبائل فون کے ٹاورز تک نہیں لگے ہوئے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔
یعنی سیاحت کے موسم میں ایف ڈبلیو او کی نااہلی کے سبب سیاحت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہےاور عوامی نمائندوں کو لوٹا کریسی اور عہدوں کیلئے چاپلوسیوں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے سے فرصت نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں اہم شاہراوں کی دیکھ بھال کیلئے گلگت بلتستان کی سطح پرخصوصی ادارہ قائم کیا جائے یا براہ راست این ایچ اے کے سپرد کیا جائے۔ این ایچ اے کے قیام کے قریب ایک عشرے بعد تک نیشنل ہائی وے کونسل کی صدارت وزیر اعظم کے پاس تھی، جو سن دو ہزار ایک میں قانونی ترامیم کے بعد وفاقی وزیر مواصلات کو منتقل کر دی گئی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چیئرمین نیشنل ہائی وے کونسل کا رکن بھی ہوتا ہے۔
اگر ان سڑکوں کو ایف ڈبیلو او کے رحم کرم پر رکھا گیا تو گلگت بلتستان میں سیاحت کا کوئی مستقبل نہیں۔ مقامی عوام کے درپیش مسائل کی نہ اسلام آباد کے نزدیک کوئی اہمیت ہے نہ ہی عوام کی کوئی حیثیت ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ ایف ڈبیلو او کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اُن کی نااہلی کے سبب گلگت بلتستان کے عوام اور شعبہ سیاحت ، جس سے علاقے کی معیشت جڑی ہوئی ہے ، کو کس قدر نقصان ہو رہا ہے۔