یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جن جن سرکاری و غیر سرکاری محکموں و اداروں میں خواتین کام کرتی ہیں وہاں پر موجود مرد اور خصوصا سپورٹ سٹاف جن میں ڈرائیورز، باغ مالی، چوکیدار ، باورچی ، قاصد ، چپڑاسی وغیرہ خواتین عملے سے برتاو کرنے میں ان بنیادی باتوں کا خیال نہیں رکھتے ہیں جن سے خواتین کی توہین ہوتی ہے، ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ دکھ محسوس کرتی ہیں۔ اس حوالے سے حالیہ کچھ مہنوں میں کچھ شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔ جن میں خاص طور سے ڈرائیورز کا خواتین کے ساتھ بد تمیزی ، جنسی حراسانی اور غیر مہذب حرکات کی شکایات نمایاں ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے حکومت گلگت بلتستان اور وویمن ڈیولپمنٹ ڈائریکٹریٹ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو جینڈر پالیسی بنانے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کرانے کے پابند کریں۔ نیز ان تمام اداروں کو پابند کریں کہ وہ اپنے تمام سٹاف کی اس ضمن میں تربیت کریں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سٹاف کی صنفی حساسیت کے حوالے سے بنیادی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں پیشہ ورانہ اور احترام پر مبنی رویوں کا فقدان ہے۔ دوسری طرف کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف گلگت بلتستان اسمبلی کا 2013 میں پاس کیا گیا قانون موجود ہے جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ چیف سکریٹری گلگت بلتستان کو چاہئے کہ وہ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو اس قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے پابند کریں، جس کے تحت ابتدائی طور پر ہر محکمے میں جہاں خواتین کام کرتی ہیں وہاں ایک اینٹی حراسمنٹ کمیٹی کا قیام ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ مذکورہ قانون کا ضابطہ اخلاق جو کہ اس قانون میں درج ہے تمام دفاتر کی مرکزی جگہ پر آوایزاں کرنا لازمی ہے۔ کام کی جگہ پر خواتین کو ایک خوشگوار اور مہذب ماحول فراہم کئے بغیر ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ پڑھی لکھی ،ہنر مند اور دیگر خواتین ذندگی کے مختلف شعبوں میں کام کر کے اپنے خاندان اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جن میں تعلیم، صحت، آئی ٹی، زراعت سمیت دیگر کئ شعبے نمایاں ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اب اس ضمن میں ٹھوس اور بھر پور کردار ادا کرے ۔ تاکہ خواتین ایک محفوظ اور پر امن ماحول میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات جاری رکھ سکیں۔ اس ضمن میں ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی محترمہ سعدیہ دانش صاحبہ جو کہ 2013 میں کام کی جگہ پر خواتین کی ہراسانی کے خلاف قانون بنانے میں کر دار ادا کر چکی ہیں بھی اس پر عملدرآمد میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر سماجی بہبود دلشاد بانو صاحبہ ، صوبائی وزیر ثریا زماں صاحبہ، اراکین اسمبلی رانی صنم فریاد صاحبہ اور کلثوم فرمان صاحبہ بھی اس قانون پر عملدرآمد کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں