کالمز

ایک ہی دفعہ طے کیجئے، پلیز

گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی رواداری کے تین بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں. سب کچھ ان تینوں کے ہاتھ میں ہے.

1. اہل سنت الجماعت

2. اہل تشیع

3. اسٹیبلشمنٹ

آپ تینوں سے ایک دردمندانہ اپیل ہے. یہ اپیل گلگت بلتستان کے بیس لاکھ مفلوج عوام کی طرف سے چند ذمہ دار لوگوں کے نام ہے. میں صرف لکھ کر آپ تک پہنچا رہا ہوں، اگر مجھ پر یقین نہیں ہے تو ایک ایک فرد سے انٹرویو کیجئے. یقین آجائے گا. پلیز جو کرنا ہے ایک دفعہ کر لیجیے.

اہل سنت سے اپیل

اہل سنت کے اہل علم، عمائدین، وکلاء اور تاجر برادری ایک دفعہ سنجیدگی سے بیٹھ کر کچھ دو ٹوک فیصلے کر لیجیے کہ آئندہ اہل تشیع حضرات کی طرف سے آپ کے مقدسات کی توہین و تضحیک کے بعد آپ نے پہلا اور آخری رد عمل کیا دینا ہے. آپ اپنے اس رد عمل کو تحریری طور پر لکھ کر میڈیا کے ذریعے ہر ایک تک پہنچائے. تاکہ اگلے دو اسٹیک ہولڈرز اس کے مطابق اپنا بیانیہ دیں.

اہل تشیع سے اپیل

اہل تشیع کے شیوخ، ذاکرین، عمائدین وکلاء اور تاجر برادری بھی سرجوڑ کر بیٹھ جائیں کہ وقفہ وقفہ سے آپ نے اہل سنت کے مقدسات کو چھیڑنا ہے اور ماحول گرم کرنا ہے تو پلیز یہ سب اعلانیہ اور دو ٹوک کیجئے تاکہ کوئی ابہام میں نہ رہے.یا کوئی اور پلان اور بیانیہ ہے تو وہ بھی بلاکم و کاست شیئر کیجئے تاکہ اگلے دونوں طبقات کو اپنا اپنا ری ایکشن، رپلائی یا رسپانس دینے میں آسانی رہے گی.

اسٹیبلشمنٹ سے اپیل

اسٹیبلشمنٹ بھی دیکھ لیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے.

خدارا!

آپ بھی پس پردہ نہ رہے. اب تک جو ہوا سو ہوا. اب آپ کو گلگت بلتستان میں امن اور دونوں مکاتب کے ساتھ جو بھی راہ رسم رکھنا ہے علی الاعلان بتلا دیجئے. اور آپ اپنا بیانیہ بلاکم و کاست شیئر کیجئے. تاکہ اہل سنت اور اہل تشیع بھی اسی کے مطابق اپنے اطوار و انداز بدلیں اور لائحہ عمل طے کریں.

آپ تینوں اسٹیک ہولڈرز کی تعداد چند ہزار ہی ہوگی. آپ تینوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بیس لاکھ، مفلوک و مفلوج، عوام بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں. آپ کی سوچ سے بھی زیادہ. تکلیف میں مبتلا ہیں. اور جی بی کے عوام کیساتھ لاکھوں سیاح بھی بد دل ہیں.

واللہ!

آئے روز کی پس پردہ چالوں، مقدسات کی توہین و تضحیک، روڈ بلاک، احتجاج، دھرنے، جھگڑا، لڑائی ، قتل و غارت، کاروبار کی بندش، سیاحت کی تباہی اور منافقانہ رویہ اور منہ میں رام رام بغل میں چھری والے رویہ سے،

داریل سے خپلو تک

شندور سے ہنزہ نگر تک

گلگت سے استور تک

چلاس سے اسکردو تک

کے بیس لاکھ لوگ تنگ آچکے ہیں. ہر آدمی آپ کو جھولی بھر کر بد دعائیں دے رہا ہے. کاش کہ اللہ قبول فرمائے.

آپ کے درمیان امن معاہدات بھی ہوئے. ہر ضلع میں امن معاہدہ ہوا، جی بی سطح پر ہوئے، 1990 سے 2023 تک درجن سے زائد امن معاہدات ہوئے ہیں، ایک دوسروں کے تبلیغی اجتماعات اور محرم کی مجلسوں میں بھی گئے، مساجد و امام بارگاہوں کے چکر بھی لگے. اپیکس کمیٹیوں کی میٹنگز بھی ہوئیں، سیاسی و مذہبی مشاورتیں بھی ہوئیں، قانونی اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے بیانات اور اشتہارات بھی جاری ہوئے، سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے سیمینارز اور ورکشاپس بھی ہوئے. آپ کے بڑے بند کمروں اور اسمبلیوں میں بھی ملے.

یہ سب کچھ ہونے کے باوجود نہ مقدسات کی توہین رکی بلکہ جگہ جگہ سے مزید ویڈیوز آنے لگیں اور پھر سے دھرنوں اور احتجاج کے اعلانات ہوئے. اور اسی طرح مذاکرات کے بعد بھی نہ دھرنے رکے، نہ احتجاج ختم ہوئے اور نہ تضحیکی و تکفیری نعرے بند ہوئے، کچھ بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا.

آخر کیوں؟

لہذا آپ تینوں اسٹیک ہولڈرز صفا صفا بات کریں، لعل و لیت سے کام نہ لیں، کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہونی چاہئے، تاکہ

گلگت بلتستان کے لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے کہ انہیں کہاں رہنا ہے اور کہاں جانا ہے اور یہاں رہنا ہے تو کیسے رہنا ہے.

علاقائی، قومی اور بین الاقوامی تاجر برادری اور سیاحتی ادارے بھی فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے یہاں سرمایہ کاری کرنی ہے کہ نہیں اور موجودہ سرمایہ کاروں اور ہوٹل انڈسٹری بھی اپنا مستقبل کا فیصلہ کرے گی کہ انہوں نے یہاں ٹور ازم پر فوکس کرنا ہے یا سرمایہ سمیٹ کر کہیں اور جانا ہے.

آپ تینوں اسٹیک ہولڈرز اپنا اپنا "بیانیہ اور مستقبل کا لائحہ عمل” الگ الگ سے بھی طے کرسکتے ہیں اور چاہیے تو مل بیٹھ کر، پائیدار امن، سماجی ہم آہنگی، علاقائی تعمیر و ترقی اور معاشرتی رواداری کے لئے کوئی مستقل حل بھی نکال سکتے ہیں. اس کے لئے صرف اور صرف خلوص کی ضرورت ہے اور منافقت سے بچنے کی. اگر مکمل خلوص اور منافقت کے بغیر تینوں اسٹیک ہولڈرز نے کوئی دو ٹوک لائحہ عمل طے کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ گلگت بلتستان امن کا گہوارہ نہ بنے.! اور بہت جلد ترقی کے زینے طے نہ کرے.

کیا تم میں سے کوئی ایک بھی رجل رشید نہیں؟

خدارا!

جو بھی کرنا ہے، پلیز ایک بار کیجے. منافقت سے کام نہ لیں. خدا، رسول، اہل بیت، قرآن پر قسم کھائیں اور دو ٹوک فیصلہ کیجئیے کہ آخر آپ نے کرنا کیا ہے.

یقین جانیں!

آپ چند ہزار لوگوں کی وجہ سے پورا گلگت بلتستان مفلوج ہوچکا ہے. ماضی کا قصہ چھوڑیں، حال کا برا حال ہے اور مستقبل انتہائی مخدوش. سیاحتی انڈسٹری برباد ہورہی ہے. تعلیم کا زیاں ہورہا ہے.غریب بھوکا مررہا ہے. نظام زندگی مفلوج ہے. ہر دوسرا آدمی خلفشار اور ذہنی انتشار کا شکار ہے. کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے. ہر شخص عدم اطمینان کا شکار ہے. سب کچھ ستیاناس ہونے جارہا ہے

مگر نہ آپ کا تضحیک و توہین کا سلسلہ رک رہا ہے نہ ہی احتجاج اور دھرنوں اور روڈ بلاک کا سلسلہ ختم ہورہا ہے اور نہ ہی مقتدرہ کی بے حسی کم ہورہی ہے.آخر کیوں؟

ہم بیس لاکھ عوام کو ایک دفعہ بتایا جائے کہ

آخر آپ لوگوں نے کرنا کیا ہے؟

آپ کا مطمع نظر کیا ہے؟

آپ کیا چاہتے ہیں؟

ہماری زندگیوں کو تنور میں جھونک کر آخر آپ کو کیا ملنا ہے؟

ہم سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا ہے؟

پلیز جو بھی کرنا ہے ایک دفعہ کیجئے.

بار بار بدامنی، خوف و ہراس ، دہشت و وحشت، افراتفری، عدم استحکام و اطمینان اور انجانے خوف میں ہمیں مبتلا نہ کریں. ہم آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں.

ہم گزشتہ چالیس سال سے روز روز مرتے ہیں اور روز روز جیتتے ہیں. سچ یہ ہے کہ ہم ایک دفعہ ہی مرنا چاہتے ہیں یا زندہ قوموں کی طرح سدا بہار جینا چاہتے ہیں.

پلیز! فیصلہ کیجیے، یا تو مستقل مار دیجئے یا پھر زندہ رہنے اور انسانوں کی طرح جی لینے کی راہ نکال لیجیے. ہم آپ چند ہزار لوگوں کے سامنے بے بس ہیں.

جی ہاں انتہائی بے بس!

بے بسوں پر رحم ہی کیا جاتا ہے.

آخر ہمارے ساتھ یہ سب کچھ بار بار کیوں ہورہا ہے؟

اور کب تک ہوتا رہے گا؟

آخر وہ کونسا گناہ ہے جس کا نہ ختم ہونے والی سزا گلگت بلتستان کا ایک ایک فرد بھگت رہا ہے.

ایک نسل مذہبی فسادات اور منافرت کے ماحول میں مرگئی، دوسری نسل بوڑھی ہوگئی اور تیسری نسل اس انجانے خوف میں جوان ہوئی ہے.

ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارے معصوم بچے بھی اکیسویں صدی کے اس اپ ڈیٹ دور میں بھی خوف و ہراس اور لاچارگی کی کیفیت میں جوان ہوکر ذہنی عارضوں کا شکار بنیں اور پرلے درجے کی زندگی گزاریں اور ملک و ملت کے لیے تباہ کن شہری بنیں.

پلیز ہمیں معاف کیجئے.. پلیز

ہم گلگت بلتستان کے لوگ محبت کرنے والے لوگ تھے. امن پسند تھے. بیرونی دشمنوں کا اکھٹے مقابلہ کیا کرتے تھے. ایک زمانہ ہماری مثالیں دیا کرتا تھا، ہماری رواداری، امن پسندی اور اتحاد و یگانگت کی ایک مستقل تاریخ ہے. مگر چند عشروں سے نہ جانے کونسی نظر بد لگی کہ ہم فتنہ پرور بنتے جا رہے ہیں اور اس کی ہزار بیرونی اور اندرونی وجوہات اور علل ہوسکتی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہمیں فتنہ پرور، دہشت گرد، غنڈہ گرد اور زوال و خوف کے آخری دہانے پر پہنچانے کا مرکزی کردار آپ تینوں کے سر جاتا ہے. ہماری ہر ہر محرومی کے مرکزی محرک آپ ہیں. جی ہاں آپ ہی ہیں.

کیا آپ اپنے اس کردار سے پیچھے ہٹیں گے؟

پلیز یار. ہم اس انتشار اور وحشت، قتل غارت اور توہین و تکفیر سے بہت تنگ آ چکے ہیں.

پلیز اب تو بس کیجئے. اور کچھ اچھا کیجئے.

احباب کیا کہتے ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button