کالمز

ہنزہ میں شعری ادب کا ایک جائزہ

میرے محترم دوست جناب علی احمد جان صاحب اور عمران اللہ ہنزائی صاحب نے میری تحریر ” ہنزہ کی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے” کو زیر مطالعہ لاکر مجھ سے بروشسکی شاعری کی وضاحت طلب کی ہے۔ میں ان صاحبان کی آراء کا احترام کرتے ہوئے کچھ آراء قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ میری آراء حرف آخر نہیں ہیں بلکہ میری ذاتی آراء ہیں جن سے اتفاق یا اختلاف کا حق ہر کسی ہے۔
     میں نے اپنی مذکورہ تحریر میں ہنزہ میں بروشسکی شاعری کی بات کی ہے۔کیونکہ جدید دور میں، غالباً بیسویں صدی کے چوتھے عشرےکے بعد سے بروشسکی شاعری کی روایت نے ترقی کی ہے۔ بلکہ بروشسکی شاعری کا باقاعدہ آغاز بھی بیسویں صدی عیسوی میں ہوا۔ اس سے پہلے بروشسکی شاعری اپنے شاعرانہ مفہوم میں موجود نہ تھی۔ البتہ تک بندی یعنی مختلف الفاظ کو ایک ترتیب سے بیان کرنے کی مثالیں بے شک موجود تھیں لیکن یہ شاعری کے زمرے میں نہیں آتی تھیں۔
     بلاشبہ، اس بروشسکی شاعری کے بانی دارابیگ ( بابا جان) مرحوم، علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی مرحوم اور غلام الدین غلام مرحوم تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی شعراء قابل ذکر ہیں۔ یہ حضرات ٹھیٹھ مذہبی پس منظر رکھتے تھے اور ان کی شاعری بھی خالص مذہبی نوعیت کی ہے جس میں دینیاتی اور صوفیانہ خیالات و تصورات ملتے ہیں۔ تاہم،بروشسکی شاعری کا یہ حصہ فنی اور فکری ہر دو لحاظ سے بہت معیاری ہے۔
     جبکہ بروشسکی شاعری کا دوسرا پہلو / حصہ دنیاوی افکار و تصورات کا حامل ہے جس میں عشق و عاشقی، شکست و غم اور اپنے محبوب / محبوبہ کے رویوں اور اس کے تن بدن کی تعریف کی گئی ہے۔ اس موخر الذکر گروہ کی نمائندگی بعض قدیم (بیسویں صدی کے نصف آخر کے) شعراء اور بہت سے جدید دور کے شعراء کرتے ہیں۔ تاہم، شاعری کےاس حصے کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ اس لئے اس کو فنی ترقی بھی نصیب نہ ہوئی اور حوصلہ شکنی کی وجہ سے اسے مرکزی حیثیت بھی حاصل نہ ہو سکی اور ضمنی اور طفیلی بن کر رہ گئی۔
      بہر حال، بروشسکی شاعری کے مذکورہ دونوں پہلو / حصے معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور حاشیے پر رہے۔اور معاشرے کی تبدیلی پر براہ راست اثر انداز نہ ہو سکے۔ اردو اور انگریزی کی جدید ترقی پسند شاعری کی طرح کوئی تحریک ہنزہ میں چل سکی نہ ہی شینا (ست مقسے کی شینا) اور کھوار کی مزاحمتی شاعری کی طرح کی کوئی روایت پرواں چڑھ سکی۔ اس کا نتیجہ آج ہنزہ کی سیاسی و سماجی فکر و دانش کی بحرانی صورت حال ہے۔
بروشسکی شاعری میں(علامہ مرحوم کی شاعری کے کچھ حصوں کے علاوہ) نہ ناصر خسرو، رومی، غالب اور اقبال کی سی فکری رفعت و بلندی، فلسفے کی گہرائی اور مضامین کی گیرائی ہے نہ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور دیگر شعراء کی سی جدیدیت سے آگاہی، تہذیب شناسی اور دیدہ دلیری سے سماج کے نقائص کی نشاندہی کا وصف۔بلکہ اس شاعری کی خصوصیت منفعل (passive) رہنے کی ہے۔ جس کا بالواسطہ اثر ہنزہ کی سیاسی یتیمی کی صورت میں مرتب ہوا ہے۔ اس لئے، اس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہمارے معاشرتی اصلاح کا سامان فراہم کر سکے۔
      جہاں تک ہنزہ کی شینا شاعری کی بات ہے تو جدید دور میں اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔بلکہ کوئی قابل ذکر شہ پارہ یا ادب ہارہ بھی موجود نہیں ہے جسے زیر بحث لاکر کوئی رائے قائم  کی جاسکے۔ البتہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہنزہ کی کلاسیکی شینا شاعری قابل تعریف اور لائق ستائش ہے۔ کیونکہ اس کا سینہ ہنزہ کی قدیم تاریخ و ثقافت کا خزینہ ہے اور بجا طور پر یہ شاعری ہنزہ کی تاریخ و ثقافت کے لئے بنیادی مآخذ ( primary source)کا حکم رکھتی ہے۔ اس میں رزمیہ اور بزمیہ دونوں اصناف شامل ہیں۔ پہلے زمانے میں ہنزہ کے راجے، وزراء اور اکابرین اپنی قبائلی اور ریاستی تاریخ مرتب کرنے کے لئے شیناکی کے تاریخ دانوں اور لوک گیت کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ ان کی معلومات کے اعتراف میں میران ہنزہ انہیں انعام اکرام سے بھی نوازتے تھے۔
     وخی شاعری کے بارے میں ہمیں کم علم ہے۔ واخان میں شاعری کی صورت حال سے ہم قریب قریب نابلد ہیں۔ البتہ ہنزہ گوجال میں اس کے بانی عصمت اللہ مشفق ہیں اور ان کے بعد کچھ جدید دور کے قدرے جواں سال شعراء نمودار ہوئے ہیں جن میں علی قربان، ریاض احمد اور بلبل نظیر زیادہ مشہور ہیں۔وخی شاعری کے مندرجات کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ، فارسی کےاس مصرعے کے مصداق،
” زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم”
      پس ہنزہ میں ادبی روایت، خاص طور پر شاعری، خواہ بروشسکی ہو  شینا ہو یا وخی، کو جدید خطوط پر تشکیل دینے، اس میں نئے خیالات اور نئے مضامین داخل کرنے اور اسے درست معیار عطا کرنے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔کیونکہ کوئی بھی قوم عمدہ ادبی روایت کو پرواں چڑھائے بغیر ترقی نہیں کر سکتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button