کالمز

یکم نومبر 1947: جنگ آزادی گلگت بلتستان یا بغاوت گلگت؟

 یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1842 سے قبل گلگت بلتستان میں آزاد و خودمختار شاہی ریاستیں موجود تھیں۔ 1840 کے بعد بیرونی جارحیت شروع ہوئی۔ پہلے پنجاب کی سکھ فوج نے حملہ کیا۔ بعدازاں جموں وکشمیر کے ڈوگروں اور تاج برطانیہ نے جنگ و جدل کے ذریعے گلگت بلتستان پر قبضہ کیا۔

بیرونی جارحیت و قبضہ کے خلاف وقتاً فوقتاً جدوجہد جاری رہی اور طویل عرصہ کے بعد بالاخر یکم نومبر 1947ء کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں ڈوگرہ حکومت کا گلگت بلتستان سے خاتمہ ہوکر آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا قیام عمل میں آیا۔ قومی آزادی محض 16 دن برقرار رہی، بقول Martin Sokefeld یہ درست ہے کہ 1840 کے وسط سے کئی دہائیوں تک کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت پر تسلط قائم کرنے کے لئے مقامی حکمرانوں بالخصوص وادی یاسین کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی اور جنگ و جدل کے ذریعے گلگت بلتستان پر قبضہ کیا۔  راجہ گوہر امان کے ساتھ لڑی گئی ڈوگرہ افواج کی جنگیں اور ریاستہائے ہنزہ و نگر کے خلاف 1891 میں لڑی گئی نلت کی مشہور جنگ اس کی اہم مثالیں ہیں جس میں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کرنل ڈیورنڈ خود جنگ کی کمانڈ کرتے رہے۔ جنگ میں ہنزہ نگر کی شاہی ریاستیں فتح کرنے کے عوض تین برطانوی فوجیوں کو تاج برطانیہ نےوکٹوریہ کراس سے نوازا۔ جنگ کا ذکر کرنل آرنلڈ ڈیورنڈ نے اپنی تصنیف The Making of a Frontier میں تفصیل سے کیا ہے۔

تاریخی اعتبار سے گلگت بلتستان کا علاقہ قدیم ریاست بلور کے دور سے سٹرٹیجک اہمیت کا حامل رہا ہے اس لئے برٹش انڈیا نے 1877 میں گلگت ایجنسی قائم کرنے کے بعد اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کیا بعد ازاں 1935 میں گلگت لیز ایگریمنٹ کے تحت خطے کا براہ راست انتظام خود سنبھال لیا، اس طرح گلگت بلتستان تاج برطانیہ کی ایک کالونی بن گئی جہاں تاج برطانیہ نے مہاراجہ کشمیر کی مدد سے اپنا نوآبادیاتی نظام مسلط کیا جس کی باقیات آج تک موجود ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام آنے کے بعد آج تک یہ خطہ بے آئین ہے جس پر اسلام آباد سے صدارتی حکم ناموں کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے ، عوام کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کو آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

گلگت ایجنسی کے قیام سے لے کر "گلگت لیز ایگریمنٹ 1935” تک اس علاقہ کا انتظام برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کی ذمہ داری تھی جن کا کام خصوصی طور پر گلگت بلتستان سے متصل بیرونی طاقتیں چین اور روس پر نظر رکھنا تھا۔ گریٹ گیم کے دوران اس اہم سٹریٹجک خطہ کو گریٹ گیم کا مرکز اور بیرونی جاسوسی کے اڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

روسی انقلاب کے بعد گلگت لیز ایگریمنٹ کے تحت برٹش انڈیا نے گلگت ایجنسی میں براہ راست اپنی سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ قائم کر کے سرحدی علاقوں پر فوج تعینات کی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سیاست اور طاقت کے محور بدل گئے اور تاج برطانیہ معاشی طور پر اتنا کمزور ہوا کہ ان کے لئے سمندر پار کالونیوں پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا لہذا 3 جون 1947 کو منصوبہ تقسیم ہند کے تحت برٹش انڈیا کو بھارت و پاکستان میں تقسیم کیاگیا جس دوران انہوں نے گلگت لیز ایگریمنٹ کینسل کیا اور گلگت ایجنسی کا کنٹرول دوبارہ مہاراجہ کشمیر کے حوالے کیا ۔

مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا پھر اس کی جگہ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر بنا کر بھیجا جسے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے دوران گلگت سکاؤٹس نےگرفتار کرکے قیدی بنایا اور بعدازاں قیدیوں کے تبادلے میں اسے انڈیا کے حوالے کیا گیا۔

جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں قائم ہونے والی آزاد ریاست صرف 16 دن برقرار رہی۔  میجر براؤن کی ایما پر پاکستان کے صوبہ سرحد کے نائب تحصیلدار سردار محمد عالم نے بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام سنبھالتے ہی عبوری حکومت کا خاتمہ کیا۔ معاہدہ کراچی تک سرحد کے سردار محمد عالم نے یہاں کا انتظام چلایا۔ انڈیا پاکستان کے مابین کشمیر پر جنگ بندی کے بعد پاکستان نے اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت اپنے زیر انتظام لایا۔

ملک مسکین بنام حکومت پاکستان نامی مقدمہ PLD 1993 p-1 میں آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے لکھا ہے کہ گلگت بلتستان(شمالی علاقہ جات) کو وہاں کے باشندوں نے 1947میں جنگ آزادی کے دوران ڈوگرہ افواج کو شکست دے کر آزاد کروایا۔

1947کے بعد اس وقت کی آزاد حکومت ،مسلم کانفرنس اور پاکستان کے حکومت کی جانب سے وزیر بے محکمہ ایم- اے- گورمانی، چودھری غلام عباس اور سردار محمد ابراھیم خان نے دستخط کئے۔ اس معاہدے کی رو سے علاقہ جات کے تمام معاملات جو پولیٹیکل ایجنٹ گلگت کے پاس تھے حکومت پاکستان کو منتقل کر دیئے گئے ۔ تب سے گلگت بلتستان حکومت پاکستان کے زیر انتظام ہے”۔

یکم نومبر 1947ء کی جنگ آزادی اچانک وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی بلکہ بیرونی جارحیت اور تسلط کے خلاف  گلگت بلتستان کے عوام نے راجہ گوہر امان کے دور سے ہی اپنی قومی بقاء اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے طویل جدوجہد کی تھی۔ بالآخر تقسیم ہند کے موقع پر یکم نومبر 1947 کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کی بدولت 1842 کے بعد پہلی بار یکم نومبر 1947 کو ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا اورگزشتہ 75 سالوں سے یہاں ڈوگرہ اور تاج برطانیہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس لئے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کا نام دینا دراصل اس نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام چلایا جاتا ہے۔

بغاوت گلگت نامی کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو کچھ لوگ بغاوت گلگت اور نام نہاد "آپریش دتہ خیل” کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں خفیہ دستاویزات چند دہائیوں کے بعد ڈی کلاسیفائی ہوتے ہیں لیکن میجر براؤن کا نام نہاد آپریش دتہ خیل کے متعلق ایک بھی دستاویز تا حال منظر عام پرنہیں آیا ہے ، آتا بھی کہاں سے! دراصل یہ خیالی منصوبہ تھا، جسے میجر براون کی وفات کے بعد کتاب کی تدوین کرنے والے اس کے نامعلوم دوستوں کے حلقے نے تراش لیا تھا جس کا واحد مقصد ایک نوآبادیاتی بیانیہ کے تحت جنگ آزادی گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر پر قربان کرنا تھا، 

آج بھی یہاں کے لوگوں کو مسئلہ کشمیر کے نام پر حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔

انقلاب گلگت کے دوران میجر براؤن کی عمر صرف 24 سال تھی جس نے اپنا پچیسواں جنم دن گلگت میں منایا جس دوران وہ گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے جس کی بنیادی ذمہ داری گلگت بلتستان میں برطانوی مفادات کو تحفظ دینا تھا نہ کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آزادی دلانا۔ انہیں جنگ آزادی کا ہیرو قرار دینا دراصل مقامی افراد کی قربانیاں سے انحراف کے مترادف ہے۔

پاکستان کے سابق میجر جنرل احمد شجاع پاشا اپنی تصنیف "مسئلہ کشمیر” میں لکھتے ہیں "جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت کے کیپٹن حسن خان دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس حاصل کرنے کے بعد وطن پہنچے تو انہیں ان کے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ سرینگر سے گلگت جانے کا حکم ملا انہوں نے واپس کشمیر پہنچنے سے قبل ہی بغاوت کا منصوبہ بنایا اور جب مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کا اعلان کیا تو گلگت سکاوٹس کے مقامی فوجیوں کے ساتھ مل کر کرنل حسن خان نے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا”۔

احمد شجاع پاشا نے اپنی اس کتاب میں آپریشن دتہ خیل کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میجر براؤن کو اس کی بیوی مارگریٹ نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ہیرو بنا کر پیش کیا۔ ورنہ وہ تو برطانیہ کے چھوٹے سے گاؤں میں گھوڑے سدھانے والا استاد تھا۔

جنگ آزادی گلگت-بلتستان کو فرد واحد میجر براؤن کی سازش کا نتیجہ قرار دینے میں گلگت بلتستان کے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کا بھی اہم کردار رہا ہے چونکہ وہ گلگت بلتستان میں شکست کھا چکے تھے اس لئے اپنی ناکامی چھپانے کے لئے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو انہوں نے برطانیہ کی سازش قرار دیا، گلگت سکاؤٹس کی قید سے رہا ہونے کے بعدازاں انہوں نے اپنی یادداشتیں Gilgit before 1947′ کے نام سے شائع کیا، جس میں اپنی شکست اور ناکامیوں کا الزام تاج برطانیہ پر لگایا ہے۔

دوسری طرف میجر براؤن کو گلگت سے واپسی پر جولائی 1948 میں حکومت پاکستان نے فرنٹیر کانسٹیبلری میں ملازمت دی جو صوبہ سرحد میں نارتھ وزیرستان پولیس فورس کہلاتی تھی۔ اگلے دو سالوں تک اس نے وہاں مختلف عہدوں پر ملازمت کی بعدازاں فرنٹیر کانسٹیبلری چھوڑنے کے بعد ولیم براون نے پاکستان میں کامرس کےشعبے میں عہدہ حاصل کیا، اسی دوران 1957 میں ولیم براؤن کی ملاقات Margaret Rosemary Cookslay سے ہوئی وہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر تھی۔ میجر براؤن نے 1958 میں ان سے شادی کی اسی دوران اسے ہمالین سوسائٹی میں حکومت پاکستان کا سیکرٹری بنایا گیا۔ 1959 میں براؤن اور اس کی فیملی واپس برطانیہ چلی گئی 1960 میں سکاٹ لینڈ میں واقع اپنےگاؤں میں موصوف نے Livery Yard کھول دیا اور Ridding yard سکول بھی کھول دیا ، اگلے 24 سالوں تک میجر براؤن کو وہاں گھوڑے سدھارنے والے استاد کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

لیکن میجر براؤن کی بیوی اور اس کے گمنام دوستوں کے حلقے نے اس کی کتاب کی تدوین کے دوران ان کے کردار کو کمانڈنٹ گلگت سکاوٹس سے بڑھا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایسے ہیرو کے طور پیش کیا جس نے تاریخ کا دھارا تبدیل کیا ہو حالانکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔

میجر براون کے بارے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلٰی امان اللہ خان مرحوم اپنی کتاب "جہد مسلسل” کے صفحہ نمبر 286 میں لکھتے ہیں کہ "میرے قیام برطانیہ کے اواخر میں اپنے ایک عزیز حشمت اللہ خان، جن کو گلگت کے تاریخی واقعات لکھنے کا شوق تھا، کے کہنے پر میجر براؤن سے گلگت کے انقلاب سے متعلق دستاویزات مانگنے کے لیے فون کیا تو میجر براؤن نے کچھ تذبذب کے بعد مطلوبہ دستاویزات دینے کی حامی بھری مگر ان دنوں مجھے اپنے ساتھی مقبول بٹ شہید کی تہاڑ جیل نئی دہلی میں پھانسی کا دکھ تھا. (مقبول بٹ ایک کشمیری آزادی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ کا بانی تھا جن کو ہندوستان کی حکومت نے نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا)۔

اسی دوران دیگر کاموں کی وجہ سے فرصت نہ ملی کہ میں اسکاٹ لینڈ جا کر وہ دستاویزات حاصل کر سکتا۔ فرصت ملتے ہی میں نے میجر براؤن کا پتا کیا تو اس کی بیوی نے کہا کہ میجرصاحب کا  15 دسمبر 1984ء میں انتقال ہوا جب میں نے مطلوبہ دستاویزات کے بارے میں پوچھا تو مسز براؤن نے کہا کہ” کچھ دستاویزات تو رائٹرز (Reuters )نیوز ایجنسی والے لے گئے ہیں اور باقی دستاویزات پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مسٹر قطب دین عزیز لے گئے ہیں،  اب میرے پاس کچھ نہیں ہے- میجر براؤن کی کتاب دی گلگت ریبیلین( The Gilgit Rebellion ) ان کی وفات کے 14 سال بعد لکھی گئی۔”

انگریزی زبان میں شائع شدہ بغاوت گلگت نامی کتاب کو بین الاقوامی سطح پر ایک موثر بیانیہ کے طور پر حکومت پاکستان نے اپنے حق میں استعمال کیا اور اس کے بدلے حکومت پاکستان نے گلگت سکاؤٹس کے سابق انگریز کمانڈنٹ ولیم براؤن کو ستارہ پاکستان سے نوازا۔

جبکہ متبادل بیانیہ نہ ہونے کی وجہ سے کئی سالوں تک مختلف لکھاریوں اور تاریخ دانوں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق صرف اسی ایک کتاب کا ہی حوالہ دیا ہے جو کہ قابل چیلنج ہے۔

گذشتہ دنوں بغاوت گلگت نامی کتاب کو بنیاد بنا کر پاکستان کے عبوری وزیر مرتضی سولنگی نے جنگ آزادی کے ہیرو کے طور پہ میجر براؤن کی تعریف کی اور مقامی افراد کے کردار کو یکسر نظر انداز کیا جو کہ گلگت بلتستان میں لاگو نوآبادیاتی نظام کو جواز مہیا کرنے والے سرکاری بیانیہ کا تسلسل ہے جو 1947ء سے تاحال جاری ہے۔

میجر بروان کی یادداشت Gilgit Rebellion (بغاوت گلگت) کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ ”اشاعت کے لئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی کیونکہ میجر براؤن کی اصلی ڈائری کھو گئی تھی بلکہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بظاہر وہ ڈائری چوری ہو گئی تھی۔ لیکن کتاب میں ان افراد کا نام ظاہر نہیں کیا ہے جنہوں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔

کرنل حسن خان اپنی کتاب” شمشیر سے زنجیر تک ” میں لکھتے ہیں کہ یکم نومبر 1947 کو راقم نے گلگت افسر میس میں اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالا تو وہاں میجر براؤن بھی موجود تھا۔گلگت شاہی پولو گراؤنڈ کے جھمیلے سے نکل کر اسکاوٹ لائین میں آۓ تو کرنل کمانڈنگ کے بنگلے میں سب آفیسر اور گلگت کے معززین جمع تھے انہیں چپکے سے دعوت دے کر بلایا گیا تھا. یہی حال پریڈ گراؤنڈ کا بھی تھا جو کہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. مجھے بتایا گیا کہ مجلس مشاورت یا انقلابی کنونشن کی ہنگامی میٹنگ ہے جو عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے بلائی گئی ہے، کمرے میں داخل ہوا تو جملہ حاضرین کے درمیان میجر براؤن اور کیپٹن متھیسن بھی مدعو تھے، میرے رفیق اس کارخیر میں ہاتھ بٹانا اور اپنے مہرے آگے لانا چاہتے تھے. انگریز آفیسرز اس میٹنگ میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور باقی ان کے ہاں میں ہاں ملاۓ جا رہے تھے. راقم انقلاب کے سربراہ یا مارشل لاء ایڈمنسڑیڑ مقرر ہوۓ، تعجب ہے کہ خود اپنے کاندھوں پر یہ بوجھ ڈالتے وقت کسی نے مجھ سے تعرض نہیں کیا، اس مجلس مشاورت کا دل رکھنا میرا فرض ہو گیا اس لئے میٹنگ کی برخاستگی کے فوراً بعد دونوں انگریزوں کی گرفتاری کا حکم دے کر انہیں گرفتار کروا دیا ، حالانکہ جو لوگ انہیں ساتھ لے آئے تھے وہ انہیں میرے مشیر مقرر کروانا چاہ رہے تھے۔

ایف ایم خان اپنی کتاب "تاریخ گلگت-بلتستان و چترال” کے صفہ نمبر 68 میں لکھتے ہیں کہ "جنگ آزادی گلگت بلتستان میں میجر براون کی واحد کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے انقلاب گلگت کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کو ایک کامیاب سازش کے ذریعے ختم کیا اور گلگت بلتستان کو پاکستانی  صوبہ سرحد کے نائب تحصیلدار سردار محمد عالم کے حوالے کرکے مطلق العنان / آمرانہ حکومت قائم کی اس طرح گلگت بلستان میں دوبارہ نوآبادیاتی نظام قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور گلگت بلتستان کے عوام کو نوآبادیاتی نظام حکومت کا غلام بنایا۔

معاہدہ کراچی کو 1993 تک گلگت بلتستان کے عوام سے مخفی رکھا گیا یہ معاہدہ پہلی بار آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلہ میں سامنے آیا، اس قبل گلگت بلتستان کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید ان کے نمائندوں نے الحاق کیا ہے لیکن یہ ان کی خام خیالی نکل جب پتہ چلا کہ ان کا علاقہ تو متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے اور الحاق کی وجہ سے نہیں بلکہ معاہدہ کراچی کے تحت پاکستان کے زیر انتظام ہے۔

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ آزادی ہند کو بھی برطانوی و یورپی لکھاریوں نے بغاوت ہند کا نام دیا تھا جبکہ مشہور فلسفی کارل مارکس نے اس واقعہ کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا تھا اس کے بعد ہندوستان کے مقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے بھی اس واقعہ کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا ہے جبکہ دوسری طرف انگریز سرکار نے اس سے بغاوت ہند کا نام دیا ہے۔

جنگ آزادی ہند کے متعلق 1857 میں انڈیا میں تعینات انگریز سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا Earl Stanley نے برطانوی پارلیمنٹ کو رپورٹنگ کرتے ہوئے  اسے بغاوت کا نام دیا تھا بعد ازاں برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح بغاوت کا استعمال کیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنگ آزادی ہند میں ہندوستانی افواج کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بدترین شکست دے کر آخری مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کر کے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے براہ راست زیر نگیں کیا، لیکن برصغیر کے لکھاری اور عوام شکست کے باوجود اس واقعہ کو جنگ آزادی ہند قرار دیتے ہیں اور اور نصابی کتب میں شامل کرکے جنگ آزادی ہند کے عنوان سے پڑھایا جاتا ہے۔

دوسری طرف وہی لوگ جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت قرار دیتے ہیں جو کہ منافقت کی بدترین مثال ہے حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں ہی یہاں سے ڈوگرہ حکومت کا مکمل خاتمہ ہوا اور گزشتہ 75 سالوں سے یہاں ڈوگرہ حکومت کا کوئی وجود باقی نہیں ہے، مگر یہ الگ بحث ہے کہ اس آزادی کے ثمرات سے گلگت بلتستان کے عوام آج تک محروم رہے ہیں لیکن جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت کا نام دینا دراصل نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل اور گلگت-بلتستان سے غداری کے مترادف ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button