کالمز

جی بی کے فضلا: علمی کنٹریبیوشن

زمانہ طالب علمی میں مجھے اکابر علماء و مشائخ کی آپ بیتاں اور سوانح عمریاں پڑھنے کا بڑا شوق تھا. اس کا فائدہ یہ ہوا کہ "مشاہیر علماء گلگت بلتستان” کے نام سے ایک تحقیقی و تصنیفی سلسلہ زمانہ طالب علمی سے شروع کیا. قیام پاکستان سے پہلے کے فاضلین دارالعلوم دیوبند کو ابتدا میں رکھا. حیرت ہوئی کہ دو درجن سے فاضلین دارالعلوم دیوبند پر 80، 90 سالوں میں کسی نے کچھ نہیں لکھا. ایک دو شخصیات پر تاثراتی مضامین کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا.
ان بزرگوں کی سوانح جمع کرنے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، وہ الگ کہانی ہے. پھر کھبی.
ان فاضل علماء کی گلگت بلتستان میں اشاعت دین کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں اور اتفاق سے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم بھی دلائی ہے اور کروڈوں کی جائیداد بھی چھوڑی ہے مگر اولاد اتنی ناہنجار کہ اپنے عظیم باپ پر دو چار لاکھ خرچہ کرکے کوئی کتاب ہی قلم بند کرواتی، مگر استخوان فروشوں کے اس قبیل نے آج تک اس کی زحمت نہیں کی. اللہ ایسی اولاد کسی کو نہ دے.

2015 میں اپنے ایم فل کے مقالے کے لئے گلگت بلتستان میں قیام امن کا ٹاپک چنا. سوچا کہ ایک باب گلگت بلتستان کے مسالک کا تعارف اور تاریخ پر لکھا جائے. چار مکاتب فکر کو چنا. گلگت بلتستان کی اسماعیلی برادری نے شاندار تصنیفی کام کیا ہے. درجنوں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں.ان کی پوری تاریخ مرتب ہے. اہل تشیع کے اہل علم نے بھی اپنی جی بی کی تاریخ مرتب کی ہے اور اپنے اہل علم کی کاوشوں کو قلم بند کیا ہے. لٹریچر موجود ہے. نوربخشی برادری کی بنیاد ہی جی بی میں پڑی ہے. انہوں نے بھی اپنے تُراث کو شاندار انداز میں مرتب کیا ہے اور بہت سارا لٹریچر ان کی مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے. ان کی کتابیں آن لائن موجود ہیں. ان تینوں مکاتب فکر کی کتابوں سے ریسرچر استفادہ کررہے ہیں. علمی مقالوں اور تحقیقات میں ان کی کتب کے حوالے استعمال ہو رہے ہیں.

جب اہل سنت کی تاریخ، ان کے علماء و مشائخ کی کاوشوں کو جاننے کی کوشش کی تو کچھ بھی نہیں ملا. جی بی کی چار مسلکی برادریوں میں اہل سنت آبادی 35 فیصد ہے. ان کے علماء قدیم زمانے سے یہاں موجود ہیں. دو درجن سے زائد علماء نے قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی ہے. باقاعدہ مستند اہل علم ہیں. ان سے پہلوؤں کی بات الگ ہے. . اب تو جی بی اور پاکستان بھر میں گلگت بلتستان کے علماء کی سو سے زائد مدارس ہیں. ان کا سالانہ بجٹ اربوں میں ہے. یعنی اربوں روپیہ یہ حضرات، مدارس میں مختلف مَدوں میں خرچ کرتے ہیں. مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی سے پھنڈر تک، لاہور سے گانچھے تک ان سینکڑوں مدارس میں ایک بھی دارالتصنیف نہیں جہاں گلگت بلتستان میں اہل سنت علماء کی دینی خدمات اور اہل سنت کی تاریخ و تراث اور دیگر علمی موضوعات پر کام ہورہا ہو.

اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان مدارس کے ارباب و اختیار اور اور جی بی کے جید علماء کرام سے میری اچھائی شناسائی ہے. ہر ایک کے پاس اس کام کی اہمیت بلاکم وکاست بیان کی. مگر افسوس آج تک کسی نے سیریس نہیں لیا. کاش ایسا نہ ہوتا.
آج بھی دیامر، گلگت، استور، بلتستان اور غذر میں کئی امیر ترین دینی مدارس ہیں. ان کے ارباب چاہیے تو بہترین ویب سائٹ، میگزین اور شاندار تصنیفی کام کرسکتے ہیں. اور سابق علماء و مشائخ اور مبلغین و مفسرین کی کسمپرسی میں کی جانے والی دینی خدمات کی روئداد مرتب کی جاسکتی ہے. مگر اس عظیم علمی کنٹریبیوشن سے یہ حضرات کیوں کتراتے ہیں، آج تک وجہ سمجھ نہیں آ سکی. کراچی لاہور اود اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے اہل سنت جید علماء کے کئی بڑے ادارے ہیں. وہ بھی اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں.
آخر پورا علاقہ ایک صدی سے بانجھ کیوں ہے مجھے سمجھ نہیں آئی.

اگر آج کوئی سوال کرے کہ گلگت بلتستان میں اہل سنت کیسے آئے، مبلغین کون تھے. ان کی خدمات کیا ہیں، دین کیسے پھیلا، مساجد و مدارس کیسے بنے، اہل سنت میں بدعات کیسے ختم ہوئی، عقائد وافکار کی اصلاح کیسے ہوئی،تبلیغی جماعت گھر تک کیسے پہنچ گئی، ہزاروں حفاظ اور علماء کیسے پیدا ہوئے اور ان جیسے بے شمار سوالات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں اور نہ کسی کتاب کا حوالہ مل سکتا ہے. کچھ باتیں زبانی کلامی چل رہی ہیں اور بس.

آج کے نوجوان فضلاء چاہیے تو اپنی صلاحیتوں کو اس طرح متوجہ کرسکتے ہیں. اگر ایسا ہوا تو اہل سنت کی تاریخ محفوظ ہوجائے گی. یہ ایک بہت بڑی علمی کنٹریبیوشن ہوگی. کوئی ہے جو اس صدا پر لبیک کہے..؟ خیر! نقار خانے میں طوطی کا کون سنتا ہے. مگر صدا دینا لازم ہے.

وہ حضرات، جن کے والدین نے قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کے بڑے علمی اداروں سے پڑھا تھا ان پر لازم ہے کہ اپنے والدین کی دینی خدمات پر مشتمل مواد تیار کروا کر شائع فرمائیں. ورنا کل اپنے والدین کو کیا منہ دکھائیں گے. رسول اللہ کے صحابہ نے اپنے حبیب صل اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک ایک ادا محفوظ کی اور یہاں استخوان فروش لوگ باپ داد کا نام بیچ کھاتے ہیں. اور بس

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button