ریاست جموں وکشمیر پر انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ اف انڈیا کی 5 رکنی بنچ نے 11 دسمبر 2023 کو چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ کی سربراہی میں تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد متفقہ طور ’جموں کشمیر تنظیمِ نو بل کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے دو یوٹیز میں تقسیم کرنے کے انڈین مرکزی حکومت کے 2019 کے فیصلے کی صداقت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے مودی سرکار کے 5 اگست 2019 کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے اس پر عدالتی مہر ثبت کرکے تصدیق کیا ہے کہ جموں و کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔
تفصیلی فیصلہ میں اس مقدمہ سے جڑے ہوئے پیچیدہ قانونی پہلووٴں پر سیر حاصل بحث کی گئی، ساتھ میں تاریخ جموں وکشمیر پر بھی انڈین ریاستی نقطہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ انڈین آئین کا ارٹیکل 370 عارضی تھا اور اس صدارتی آرڈینینس کو جائز قرار دیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور خودمختاری کو ختم کیا گیا تھا۔
جموں وکشمیر کی تاریخی پس منظر کے متعلق اس فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ لاہور معاہدہ کے تحت برٹش سرکار نے معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 پر عملدرآمد کیا اور اس کے تحت hilly پہاڈی ملک اور اس کی ماتحت علاقہ جات جوکہ دریائے انڈس کے مشرق اور راوی کے مغرب میں واقع ہیں جن میں champa شامل تھا جبکہ Lahaul شامل نہیں تھا ان علاقوں کو برٹش سرکار نے مہاراجہ اف جموں گلاب سنگھ کو منتقل کیا۔
1834 میں زورا سنگھ جو مہاراجہ جموں وکشمیر گلاب سنگھ کی آرمی کے کمانڈنگ جنرل تھے ، انہوں نے لداخ پر حملہ کیا اور لداخ ڈوگرہ حکومت کے ذیر کنٹرول آیا پھر اس سے ریاست جموں وکشمیر میں شامل کیا گیا-
1841-42 میں Sino-Sikh جنگ میں چین کی Qing بادشاہت نے لداخ پر حملہ کیا لیکن SinoTibetan آرمی کو شکست ہوئی، بعدازاں 9 مارچ 1886 میں مہاراجہ لاہور اور برٹش حکومت کے درمیان معاہدہ لاہور پر دستخط ہوئی۔ جس کے تحت مخصوص علاقہ جات ایسٹ انڈیا کمپنی کو ٹرانسفر کیا گیا 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت لداخ جموں وکشمیر کا حصہ تھا جس کو سری نگر سے ایڈمنسڑ کیا جاتا تھا ۔
30 جون 1857 کو مہاراجہ گلاب سنگھ وفات پا گئے تو اس کے بیٹے رنبیر سنگھ مہاراجہ بن گئے اس وقت بادشاہت تھی اور وہ مکمل خودمختار تھے بعد ازاں برٹش انڈیا ایکٹ 1857 جو کہ جون 1858 کو نافذ ہوا کے تحت وہ علاقہ جات جو ایسٹ انڈیا کے براہ راست قبضہ میں تھے ان کے تمام اختیارات بادشاہ برطانیہ کو منتقل ہوئے ۔
مہاراجہ رنبیر سنگھ 1885 میں وفات پا گئے اور اس کے بعد مہاراجہ پرتاب سنگھ ریاست جموں وکشمیر کا حکمران بن گیا۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے نام پر ایک مشہور پل پرتاپ سنگھ پل آج بھی گلگت بونجی کے مقام پر موجود اور زیر استعمال ہے۔
30 اگست 1899 میں برطانوی پارلیمنٹ نے Interpretation Act 1889 انڈیا میں لاگو کیا،جس کے شق نمبر 18 (4) کے تحت اصطلاح
انڈیا کو بیان کیا ہے جس کے تحت برٹش انڈیا بشمول کوئی بھی علاقہ جات جو مقامی شہزادوں یا کسی چیف کے بالادستی میں ہو بادشاہ برطانیہ کے نام پر گورنر جنرل کے ذریعے حکومت چلائی جاتی تھی ، ان تمام علاقوں کی بیرونی اقتدار اعلٰی بادشاہ سلامت انگلینڈ کے پاس تھی۔
پرتاپ سنگھ کی وفات کے بعد 1925 میں شاہی ریاست جموں وکشمیر کا بادشاہ ہری سنگھ بن گیا جو جموں وکشمیر کا آخری بادشاہ تھا، جس نے 1927کو اپنی ریاست میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا قانون نافذ کیا تھا، جس کا اطلاق پوری ریاست جموں وکشمیر پر ہوتا تھا۔
باشندہ ریاست کو چار درجہ بندیوں میں رکھا گیا تھا، اس قانون کو تحفظ دینے کے لئے
آرٹیکل 35 اے مئی 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے انڈین آئین میں شامل کیا گیا تھا جو جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کی حیثیت بیان کرتا تھا اور ان کو باشندہ ریاست قانون کے تحت حاصل خصوصی حقوق اور مراعات کو آئینی تحفظ بھی فراہم کرتا تھا، جس سے مودی سرکار نے 2019 میں ختم کیا، کیونکہ ان کے بقول ارٹیکل 35 اے انڈین ائین کے پانچ بنیادی آرٹیکل نمبر 14، 15، 16، 17 اور آرٹیکل نمبر 21 سے متصادم ہے جو انڈین شہریوں کے پانچ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا تھا۔
کیونکہ اس ارٹیکل کے تحت جموں وکشمیر میں انڈین شہری نہ تو زمین خرید سکتے تھے نہ مستقل آبادی کاری کرسکتے تھے نہ نوکریاں حاصل کرسکتے تھےنہ ہی شہریت لے سکتے تھے، یہاں تک کشمیری خواتین جب کسی غیر کشمیری شہری یعنی انڈین شہریوں سے شادی کرتی تو ان کو قانونی طور پر جموں وکشمیر میں وراثت میں حصہ بھی نہیں ملتا تھا نہ انہیں ووٹ دینے کا حق ملتا تھا ۔
چنانچہ مودی سرکار نے ارٹیکل 35 اے ختم کرکے انڈین شہریوں کے لئے ریاست جموں وکشمیر میں مستقل آباد کاری کے لئے دروازے کھول دئیے جس سے انڈین سپریم کورٹ نے درست اور قانونی عمل قرار دیا۔
اس اہم تاریخی مقدمہ کے قانونی پہلووٴں پر سپریم کورٹ آف انڈیا نے فیصلہ دیتے ہوئے یہ لکھا کہ انڈین پارلیمنٹ کا 5 اگست 2019 کا اقدام درست اور قانونی ہے اور پارلیمنٹ نے ریاست جموں وکشمیر سے درست طور پر لداخ کے علاقے کو علحیدہ کیا ہے جبکہ ارٹیکل 370 عارضی شق تھی لہذا اس کو بھی حکومت نے درست طور پر ختم کیا ہے ۔
سپریم کورٹ اف انڈیا کے اس فیصلہ کا مطلب یہ ہے کہ اب جموں و کشمیر کا اپنا پرچم، اپنا آئین، آئین ساز اسمبلی اور یہاں کی نوکریوں اور زمینوں پر مکمل اور خاص حقوق یعنی سٹیٹ سبجیکٹ رول اب قصہ پارینہ بن چکا ہے
اب کوئی بھی انڈین شہری یہاں کی شہریت حاصل کرکے جموں وکشمیر میں زمین اور جائیداد کا مالک بن سکتا ہے۔
مودی سرکار نے جموں کشمیر تنظیمِ نو بل
کے تحت جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو ختم کرکے اب قانون ساز اسمبلی میں بدل دیا ہے ، جبکہ لداخ بشمول کرگل، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو براہ راست انڈین یونین علاقہ جات میں شامل کیا ہے ۔
اس ایکٹ کے پارٹ 2 کے آرٹیکل 3 کے تحت یونین علاقہ لداخ موجودہ ریاست جموں اینڈ کشمیر کے کرگل اور لے ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے جبکہ لے ڈسٹرکٹ میں شامل کیے گئے علاقوں میں گلگت ، گلگت وزارت، چلاس، قبائلی علاقے (یاکستان ) بھی شامل ہیں جو انڈیا کے زیر کنٹرول نہیں بلکہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں، جبکہ لداخ میں چین کے کنٹرول گلگت بلتستان کا علاقہ اقصائے چن بھی شامل کیا گیا ہے۔
حالانکہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے دستاویز الحاق نامہ 26 اکتوبر 1947ء پر دستخط کے بعد یکم نومبر 1947ء کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ذریعے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کیا ہے، لہذا انڈین سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر غیر موثر اور از خود کالعدم اور باطل ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت جموں وکشمیر کے برعکس لداخ کی علحیدہ کوئی اسمبلی نہیں ہے۔ پورے علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک لفٹیننٹ گورنر کو بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس اقدام کو بھی درست قرار دے دیا حالانکہ ری آرگنائزیشن ایکٹ ایک نوآبادیاتی قانون ہے جس میں تمام تر اختیارات کا مرکز ایک شخص کی ذات ہے۔
بقول کشمیری لیڈر نبی آزاد اب کشمیری لفٹیننٹ گورنر کی مرضی کے خلاف سانس بھی نہیں لے سکتے ہیں ، انہوں نے انڈین پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہماری ریاست کو ختم کیا ہے اور کشمیریوں کے اعتماد کو ٹھیس پنچائی ہے، اور کشمیر کی تاریخ ختم کی ہے۔
واضح رہے ہندوستان میں کشمیر کو ملا کر پہلے 29 ریاستیں تھی اب 28 رہ گئی ہیں ۔
اگر ہم قانونی نقطہ نظر سے جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ اور گلگت بلتستان ارڑر 2018 کا تقابلی جائزہ لیں تو جموں کشمیر تنظیمِ نو ایکٹ دراصل گلگت بلتستان آرڈر 2009 اور 2018کا نقل نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر 2009 میں گلگت بلتستان اسمبلی کا نام گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی تھی جبکہ آرڈر 2018 میں گلگت بلتستان اسمبلی کا درجہ گھٹا کر صرف اسمبلی کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح طرح مودی سرکار نے جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا درجہ ختم کرکے اب اسے قانون ساز اسمبلی بنایا ہے ۔
اس طرح جموں وکشمیر سے لداخ کو علحیدہ کرکے اس سے انڈین یونین سے ہی بذریعہ لفٹیننٹ گورنر کنڑول کیا جاتا ہے جس طرح 28 اپریل 1949 میں معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول آزاد کشمیر حکومت سے حاصل کرنے کے بعد اس سے براہ راست وفاق پاکستان کے زیر انتظام لایا ہے اور تب سے گلگت بلتستان میں پاکستان کے زیادہ تر قوانین لاگو ہوتے ہیں اور گلگت بلتستان کونسل کے ذریعے ان قوانین کو adopt کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انڈین سپریم کورٹ کے اس متنازعہ فیصلہ کے بعد اب انڈیا کے زیر کنٹرول جموں کشمیر کا آئین منسوخ ہو چکا ہے اور انڈین وفاق کے 800 سے زیادہ نئے قوانین جموں وکشمیر میں نافذ ہو گئے ہیں۔
5 اگست 2019 کے بعد مودی سرکار نےجموں وکشمیر میں تمام تر اختیارات صدر اور لفٹیننٹ گورنر کو تفویض کئے ہیں ۔ جس طرح آئین پاکستان کے ارٹیکل 258 کے تحت صدر پاکستان گلگت بلتستان کے لئے صدارتی حکم نامہ جاری کرتا ہے اسی طرح 5 اگست 2019 کے بعد اب صدر انڈیا کو وہ اختیارات حاصل ہیں۔
مودی سرکار کے اس اقدام کے بعد سے انڈین زیر کنٹرول جموں وکشمیر میں بھی گلگت بلتستان کی طرح سٹیٹ سبجیکٹ رول کا قانون ختم ہوگیا ہے جس بعد انڈین شہریوں کے لئے جموں وکشمیر میں آباد کاری کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے ہیں اور وہاں ڈیموگرافی تبدیل ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں، جس طرح گلگت بلتستان میں 1974 سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ ہونے کے بعد بنا کسی قانونی رکاوٹ کے باہر سے کافی تعداد میں غیر مقامی لوگوں نے آبادکاری کی ہے اور یہاں کاروبار اور سرکاری و غیر سرکاری نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور جائیداد خرید رہے ہیں ۔
انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ انڈین زیر کنٹرول جموں میں 1990 کے بعد ہندو پنڈت آبادی کی قتل عام اور تشدد کے بعد ان کی بڑی تعداد انڈیا ہجرت کر گئے تھے اب ان کو واپس لاکر دوبارہ جموں میں بسانے کا مکمل انتظام کیا گیا ہے اور ان کے لئے اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھا دی گئی تاکہ ان کی نمائندگی وادی سے منتخب نمایندوں کے برابر لایا جائے اور ایک طرح سے بیلنس اف پاور کیا جائے۔
جموں کشمیر کی سابق اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 83 تھی اور اس میں دو سیٹیں ریزرو تھیں، جن کے لیے نمائندوں کو نامزد کیا جاتا تھا۔ لیکن تنظیمِ نو بل کے بعد یہ تعداد 95 ہو گئی ہے جس میں محفوظ سیٹیں اب پانچ ہوں گی۔انڈین پارلیمان نے ’جموں کشمیر تنظیمِ نو بل‘ میں ترمیم کو منظور کر کے دہائیوں قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آئے ہندو اور سکھ مہاجرین کے لیے کشمیر کی اسمبلی میں ایک نشست مختص کی ہے۔
ترمیم کے مطابق 1990 میں وادی چھوڑ کر جانے والے کشمیر پنڈتوں کے لیے بھی دو سیٹیں محفوظ ہوں گی۔
آئینی ضابطے کے تحت اس کے علاوہ 24 سیٹیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر و گلگت بلتستان کے لیے مخصوص ہیں۔ تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ان سیٹوں پر کون انتخابات لڑ سکتا ہے، یا یہ کہ ان سیٹوں کے لیے کسی کو نامزد کیسے کیا جائے گا یا پھر آیا ان پر بھی الیکشن ہوں گے۔ تازہ بل میں پانچ محفوظ سیٹوں میں سے دو کشمیری پنڈتوں اور ایک پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے پناہ گزینوں کے لیے مخصوص رہے گی۔
اس طرح کی ایک مثال ہمیں پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں وکشمیر میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ،انڈین زیر قبضہ جموں وکشمیر سے جو آبادی 1990 کے بعد آزاد کشمیر ہجرت کر چکی تھی اور ان کی اکثریت پاکستان کے دیگر شہروں میں آباد ہے ان کے لئے آزاد کشمیر اسمبلی میں نشستیں مختص ہیں۔
آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی 53 نشستوں پر مشتمل ہے، جن میں سے بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک نشست مخصوص ہے۔ جن نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرینِ جموں کشمیر کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔
اس طرح انڈین سپریم کورٹ نے مہاراجہ کشمیر کے متنازعہ الحاق نامے 26 اکتوبر 1947 اور جموں کشمیر اسمبلی کی انڈیا کے الحاق نامے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے جس سے پاکستان نے ہمیشہ سے جعل سازی اور غیر قانونی قرار دے کر مسترد کرتے چلے آئے ہیں ۔
اس وقت انڈین کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں رائج نظام کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو آزاد کشمیر کی پوزیشن قدر بہتر نظر آتی ہے جن کی اپنی ایک نیم خودمختار ریاست موجود ہے ان کا اپنا آئین، جھنڈا، ترانہ یعنی قومی پہچان اور شناخت بھی برقرار ہے اور تاحال آزاد کشمیر میں باشندہ ریاست کا قانون بھی بحال ہے دوسرے الفاظ میں ان کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کی گئی ہے۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 257 کے تحت آزاد جموں کشمیر کی ریاست کو قانونی جواز بھی فراہم ہے جس کے تحت سابق شاہی ریاست جموں وکشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کے تحت کرنا ہے۔، دوسری طرف مودی سرکار اور انڈین سپریم کورٹ نے یکطرفہ طور پر اس متنازعہ ریاست کو اپنے ملک کا حصہ قرار دیا ہے، جس سے مہذب دنیا اور کشمیریوں کی اکثریت نے رد کر دیا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر ایک اہم قانونی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا 5 اگست 2019 کے مودی سرکار کے غیر قانونی اقدام اور انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد کیا جموں وکشمیر کا تنازع ہمیشہ کے لئے ختم ہوا ؟
بین الاقومی قانون کی رو سے اس سوال کا جواب ہمیں منفی میں ملتا ہے کیونکہ مسلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت انڈیا جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ یکطرفہ طور پر نہیں کرسکتی ہے کیونکہ ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے فیصلہ کا اختیار صرف ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے پاس ہے۔
لہذا مودی حکومت کا 5 اگست 2019 کا یہ اقدام اور سپریم کورٹ آف انڈیا کا یہ فیصلہ
کشمیر پر سلامتی کونسل کی پاس کی گئی قراردادوں کی صریحا خلاف ورزی ہے بلکہ
بین الاقوامی قانون کی روح سے بھی باطل ہے چونکہ یہ فیصلہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی نفی کرتا ہے، اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے لہذا حکومت پاکستان کو اس مسئلے پر بین الاقومی عدالت انصاف سے رجوع کرنی چاہئے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے معروضی حالات میں اس طرح کے اوپشن پر پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے، اور شاید یہ ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
البتہ انڈین سپریم کورٹ کے اس اقدام پر پاکستانی دفتر خارجہ نے رد عمل دیتے ہوئے اس فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ پاکستان کی اقوام متحدہ میں تعینات سابق مندوب ملیحہ لودھی نے انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ایکس یعنی سابق ٹیوٹر پر پوسٹ کیا کہ۔
India’s effort to give legal cover to its illegal action of August 2019 doesn’t alter the fact that Jammu & Kashmir is an international dispute. Nor can the SC verdict override UNSC resolutions which are the only basis for a resolution of the issu۔”
اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینےسے پتہ چلتاہےکہ "جموں وکشمیر کا مسئلہ دو ممالک کے درمیان صرف زمین کا مسلہ نہیں بلکہ یہ کروڑوں کشمیریوں کی زندگیوں کا مسلہ ہے ، اس تنازعہ کی وجہ سے ساوتھ ایشیاء میں جنگ کا مستقل خطرہ موجود رہتا ہے اور اس تنازعہ کا حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلہ پر 17 قراردادیں پاس کی ہیں جو گذشتہ ستر سالوں سے اقوام متحدہ کی سرد خانے میں پڑی ہیں۔
انڈین زیر قبضہ جموں وکشمیر میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد نے آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے لیکن آزادی ملنا تو دور کی بات وقت کے ساتھ یہ مسئلہ مذید گھمبیر ہوتا گیا ہے اور کشمیریوں کو خصوصی مراعات سے بھی بھی محروم کیا گیا ان کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کو سلب کرنا تشویشناک ہے۔
اگرچہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے لیکن تاحال عملدرآمد ممکن نہ ہوسکا، چونکہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں میں درج ایک اہم شرط پر عمل درآمد یعنی ریاست جموں وکشمیر سے اپنی افواج کے انخلا پر متفق نہیں ہوئیں اور اس تنازعہ کی آڑ میں کروڑوں کشمیریوں کا مستقبل یرغمال بنا کر رکھا ہے۔
اور دوسری بنیادی وجہ کشمیری سیاسی رہنماؤں کی موقع پرستی ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام میں کنفیوژن پائی جاتی ہے کہ آیا وہ انڈیا سے آزادی حاصل کرکے پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے ہیں یا مکمل طور پر ایک آزاد ریاست کا حصول چاہتے ہیں اور اس بابت کشمیری دانشور سیاسی کارکنوں کی نظریاتی تربیت کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور وہ ساری زندگی اقوام متحدہ کو کوستے رہے ہیں حالانکہ دنیا کے بہت ساری اقوام نے نوآبادیاتی پاورز سے سیاسی جدوجہد کرکے آزادی حاصل کیا ہے۔
لہذا کشمیریوں کو متحد ہوکر اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنی ہوگی اور وہ ایک دن ضرور کامیاب ہونگے۔