تحریر: شمس الحق قمر
مہ ژان دراسنوت بابو بوئے کوروئے میرزائی
ای ہزار بول مو اچہ وا لاکھ موسپاہی
شاہ یونوس لال ( مرحوم )۔چترال موڑکہو کے ایک خوبصورت گاؤں زائینی کے پھشال دوری نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں لال امیر اعظم کے ہاں 4 اپریل 1955 کوآںکھ کھولی ۔ یہ نام ( مرحوم ) کے نانا سید یوسف المعروف جنالکوچو حاجی خلیفہ نے تجویز کیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیم حاصل کرنے کے بعد گرین گدام میں کلرکی کے علاوہ ملازمت کی باقی تمام راہیں مسدود تھیں لہذا تعلیم حاصل کرنا ایک غیر مفید سرگرمی سمجھی جاتی تھی ۔ تاہم شاہ یونس صاحب نے اپنی حیات میں ایک گفتگو کے دوران علاقے میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب شہزادہ فخرلملک (مرحوم) سن 1960 کی دہائی میں تحصیل موڑکہو کا تحصیلدار تھے تو اپنے حلقۂ ملازمت میں سرکاری امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ عوام کے گھروں میں تشریف لے جاکر تعلیم و تربیت کی تلقین کرتے بلکہ کچھ بچوں کو اپنی سرپرستی میں پرائمری سکول دراسن لے جاکر داخلہ بھی دلایا تھا۔ اس نیک کا م کا سہرا صرف شہزادہ مرحوم کے سر ہی نہیں سجتا بلکہ اُس زمانے کے ماہر تعلیم محترم استاد جناب شاہ (مرحوم) بھی اس کار خیر اور صدقۂ جاریہ میں برابر کے شریک تھے ۔
محترم استاد اور بے پناہ تجربہ کار ماہر تعلیم محترم شاہ یونس لال ( مرحوم) کی تعلیم و تربیت میں مذکورہ شخصیات کا اہم کردار رہا ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ ایک دن شہزادہ مرحوم کا گزر پھشال دوری سے ہوا تو لال امیر اعظم کے دولت کدے میں ضیافت کا اہتمام ہوا ۔شاہ یونس کی دادی میرِ واخان، پھورولیک میتار کی صاحب زادی اور کھوار کے بلند پایہ شاعر گل اعظم خان گل کی ہمشیرہ تھیں لہذا علم فن کی پیاس محترم شاہ یونس کو دادی کی طرف سے ورثے میں ملی تھی ۔دوسری طرف شہزادہ مرحوم کے دورۂ پھشال دوری نے سونے پر سہاگے کا کام دیا ۔شہزادہ فخرالملک کے اصرار پر لال امیر اعظم نے اپنے بچے کو دراسن کے سکول میں داخل کرنے کی ہامی بھر لی یوں شاہ یونس لال نے سن 1960 میں دراسن پرائمری سکول میں علم و ہنر کے پہلے دن کا آغاز کیا ۔ شاہ یونس اپنے تمام ہم جماعتو ں میں تیز طرار بچہ تھا لہذا پہلی جماعت سے اول پوزیشن لینا شروع کیا ۔قسمت کی دھنی تھے جیسے ہی آپ نے چوتھی جماعت پاس کی تو سکول کو بھی مڈل کا درجہ دیا گیا ۔صاحبِ موصوف نے اپنی پوری توجہ تعلیم کی طرف مبذول کی اور مڈل کے امتحانی نتائج میں بھی سر فہرست رہے۔ ۔شاہ یونس تحصیل موڑکہو میں وہ واحد طالب علم تھے جسے قابلیت کی بنیاد پر محکمۂ تعلیم کی جانب سے مبلغ 240 روپے وظیفہ بھی ملنے لگا ۔ وظائف کی حصولی کے لئے چترال پائین کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا یہ دو دن کی مسافت ہوا کرتی تھی ( اجکل دو گھنٹے کی مسافت ہے ) یہ سن 1968 کا واقعہ ہےکہ جب شاہ یونس نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ پائین چترال کا سفر اختیا ر کیا ۔صبح رخصت ہوتے وقت شاہ یونس کی دادی نے اپنی محبتوں اور دعاؤں کی زادِ راہ فی البدیہہ شاعری کی صورت میں پیش کی ۔
مہ ژان دراسنوت بابو بوئے کوروئے میرزائی
ای ہزار بول مو اچہ وا لاکھ موسپاہی
اس شعر کی روشنی میں شاہ یونس کی دادی امّا کو کھوار زبان کی پہلی شاعرہ کہنا بے جا نہیں ہوگا ۔ بحر حال صاحب موصوف چترال پہنچے اور وظائف کے ساتھ استاد الاساتذہ جناب شاہ (مرحوم )سے خوب داد و تحسین بھی وصول ہوئی ۔ وظیفے کی رقم اتنی بھاری تھی کہ صرف دو روپے میں محترم شاہ یونس کے والد صاحب نے چترال کے مشہور تاجر گل فروز کی دُکان سے اپنے بچے کے لئے بہترین چمڑے کے بنے جوتے خریدے جو کہ اجکل ہزاروں سے کم قیمت پر دستیاب ہونا ناممکن ہے ۔ شاہ یونس اپنی قابلیت کے بل بوتے پر سالانہ وظائف کا حقدار ٹھہرا اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مالی نا آسودگی اور کچھ گھریلو مسائل کی بنا پر ملازمت کے خیال سے پشاور کا رخ کیا یہ زمانہ سن 1971 کا تھا ۔ ایک کپمنی میں تیس روپے کی ملازمت اختیار کی اس کمپنی کے ساتھ ایک سال بیتانے کے بعد دفتری کام کا تجربہ ہوا تھا لہذا 60 روپے ماہانہ تنخواہ پرافغان اینڈ کمپنی کے نام سے ایک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں کیشئر بھرتی ہوئے اس کے بعد اسسٹنٹ منیجر اور پھر پبلیک ریلیشن افیسر کے عہدے تک ترقی پائی اور پانچ سال تک اس ادارے کے ساتھ کام کیا ۔ اس ملازمت کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ صاحب موصوف کو پشتو ، دری، فارسی اور ہنکو جیسی زبانیں نہ صرف سیکھنے بلکہ ان پر مکمل طور پر عبور حاصل کرنے کا زریں موقعہ بھی ملا۔ جولائی 1977 میں ملکی حالات مخدوش ہوئے ذولفقار علی بھٹو کو سیاسی ملزم اور پھر مجرم گردان کرپابند سلاسل کیا گیا تو پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی بدل گیا یوں تجارتی ادارے بھی معاشی طور پر کمزور پڑگیے۔ ان نامساعد حالات میں بھی سن 1980 تک صاحب موصوف کمپنی سے وابستہ رہے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی شروع کی تھی لہذا اُس جنگ کے نقصاندہ اثرات بلاواسطہ پاکستان پر بھی مرتب ہوئے یوں یہ کمپنی آہستہ آہستہ اپنا وجود کھونے لگی اور موصوف کو واپس چترال کا رُخ کرنا پڑا ۔
اپریل 1980 کو چترال میں آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے سکولوں کا تجرباتی طور پر اجرا عمل میں آیا تو ادارے کو ایسے اساتذہ کی ضرورت تھی جو تدریس کے عمل میں مختلف زبانوں پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی کام کرنے کے قابل ہوں ۔ اُس وقت تجرباتی بنیادوں پر صرف پانچ سکول کھولے گئے جن میں اویرک، کھوت ، پرکوسپ،مداک لشٹ اور لون کے سکول شامل تھے۔ ادارے نے شاہ یونس صاحب کو لون سکول کے لئے بڑی منت سماجت کے بعد قائل کرایاکیونکہ یہاں بہت سخت محنت کی ضرورت تھی اور دوسری طرف تنخواہ بہت کم تھی لیکن شاہ یونس صاحب نے اس کارِگراں کو چیلنچ کے طور پر قبول کیا ۔گھر گھر جاکر بچوں کو ذہنی طور پر تعلیم کے لئے امادہ کر نے اور تعلیم کے فلسفے کو ان کے دلوں میں جھونکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس زمانے میں تعلیم نسواں قدرے معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن شاہ یونس صاحب نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خواتین کے لئے تعلیم کی ضرورت اور اہمیت پر عبادت گاہوں میں جاکر تبلیغ شروع کی کیوں کہ ٓمرحوم قرآن کریم اور احادیث مبارکہ پر بھی برابر دست رس رکھتے ہیں لہذا قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروانا اُن کے لیے بہت مشکل نہ تھا ۔چھ برس تک صاحبِ موصوف نے اسی سکول میں اپنی جدو جہد جاری رکھی پھر آغا خان سکول گہت میں تبدیلی ہوئی یوں تعلیم کی روشنی پھیلانے میں موصوف نے اپنی پوری زندگی صرف کی ۔AKESP میں درس و تدریس کے علاوہ اساتذہ کو تربیت دینے کی مشکل زمہ داری بھی قبول کی اور پھر اسی ادارے کے انتظامیہ میں کلیدی کردار کے حامل رہے ۔
مجھے بہت ہی معتبر لوگوں نے بتایا ہے کہ جب شاہ یونس لال ( مرحوم)ادارے کے انظامیہ کے ساتھ منسلک تھے تو اُنہیں مختلف جگہوں میں سکولوں کے دورے پر جانا ہوتا اور وہ درس و تدریس کے مواد سے بھری گاڑی لیکر نکلتے لیکن موسم کی خرابی، بارش ، سیلاب یا پھر شدید برف باری میں جب گاڑی پھنس جاتی تو سکول کے ساما ن اپنی پیٹھ اور کاندھوں پر اُٹھائے وادی کے اندر کٹھن اور پُر پیچ راستوں سے پیدل چلتے ہوئے متعدد بار دیکھا گیا ۔ لو گ جب پوچھتے کہ میاں موسم کے خوشگوار ہونے کا انتظار کرتے ! تو موصوف مسکرا کر جواب دیا کرتے کہ تعلیم کے معاملے میں وقت کی پابندی پہلی شرط ہے یہ قوم کا مستقبل ہیں لہذا مجھے خوشی ہے کہ تدریسی بوجھ کے نیچے میرے جسم پر پڑنے والا نیل کا ہر نشان ایک زمہ دار قوم بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور میرے لیئے اس سے بڑھ کر اور سعادت مندی کیاہوسکتی ہے ۔
موصوف جب تک ادارے میں رہے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتو کو مکمل طور پر بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ ملازمت کے اواخر میں AKESP کے ایک پروجیکٹ میں موصوف کی خدمات کی منتقلی ہوئی اور یہ پروجیکٹ بہت جلد اختتام پزیر ہوا ۔ یوں ۔ستائش کی تمنا اُس وقت بھی نہیں تھی جب ہاتھوں میں جنبش تھی اور صلے کی پروا مرنے تلک نہیں رہی ۔ علم و ہنر کے ساغر و مینا کی پییاس اتنی شدید تھی کہ وقت نکال کر علاقے کے نوجوانوں کو بلا وعوض پڑھا تے رہے ۔میں نے از راہ تفنن استفسار کیا کہ کیا محترم کو تھکاوٹ نہیں ہوتی جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی درس و تدریس میں مصروف ہیں اور وہ بھی مفت؟ فرمانے لگے ‘‘ اس پیشے نے مجھے زندگی دی ہے اور میں صرف قرض چکا رہا ہوں کسی پر احسان نہیں کر رہا ‘‘
کل خبر ملی کہ یہ نابغہ روزگار ہستی لاہور میں انتقال کرگئے تو میں نے اپنی ڈائری پر نظر ڈالی ۔
اللہ مرحوم شاہ یونس لال کو جنت فردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔