فلک نور کے عظیم باپ، سخی احمد جان، کو خراج تحسین
یہ وہ عظیم باپ ہے جس کے چہرے پر اپنی بیٹی کی جدائی کے غم کا کرب عیاں ہے، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ دنیا کے ہر باپ کی طرح یہ باپ بھی اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ اس کی بیٹی اس کی گود سے دو مہینے قبل چھینی گئ ہے۔
اس عظیم باپ نے اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے گلگت بلتستان کے نظام انصاف اور قانون کے رکھوالوں کا کوئی ایسا دروازہ نہیں ہے جو نہ کھٹکھٹایا ہو۔ دومہینے گزرے ہیں یہ اپنی پیاری ننھنی منھنی بیٹی، جس کو اس نے اپنی گود میں بیٹھا کر کھلایا پلایا ہے، کو زندہ و سلامت دیکھنے کے لئے دن رات تڑپ رہا ہے۔ بیٹی کی تصویر یا ویڈیو جب بھی سوشل میڈیا پر آتی ہے اس کا کلیجہ پھٹ کر منہ کو آتا ہے۔
اس باپ نے اپنی بیٹی کے اغواء کی ایف آئی آر دو مہینے قبل دنیور (گلگت) تھانے میں درج کروائی تھی۔ مقامی پولیس اس مسلے کو ٹالتی رہی اور ان کی بیٹی کو بازیاب نہیں کراسکی۔ یہ باپ کہتا ہے میری بیٹی خوف زدہ ہے وہ اغوا کاروں کے چنگل میں ہے، اس کی جان کو خطرہ ہے۔
یہ باپ کہتا ہے کہ ملک کے قانون کے مطابق سولہ سال سے کم عمر کی بچی اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی ہے۔ اس بچی کی عمر نادرا ریکارڈ کے مطابق بارہ سال اور کچھ مہینے ہیں۔ پھر اس سے زبردستی سوشل میڈیا میں دلائے گئے بیان کو کیوں سوشل میڈیا میں پھیلا یا جا رہا ہے؟ یہ باپ کہتا ہے میں اس بچی کا باپ اور شرعی طور پر ولی ہوں۔ میری رضامندی کے بغیر بچی کا نکاح کیسے ہوگیا؟ یہ باپ کہتا ہے کہ اغوا کار اگر سچ اور حق پر ہیں تو خود ہی کورٹ میں پیش کیوں نہیں ہوتے ہیں ؟
یہ باپ ایسے متعدد سوالات پولیس ، عدالت ، وکلاء ، صحافی ، اساتذہ ، علماء ، حکومت اور معاشرے کے ہر فرد سے پوچھتا ہے۔ لیکن سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ، جن کو ان کی بات سمجھ آتی ہے وہ شرمندہ ہیں ، جن کو ان کی بات سمجھ نہیں آتی ہے وہ بےحس ہیں اور جو اس باپ پر ہنستے ہیں وہ ظالم اور درندے ہیں ۔ اگر کسی کو یہ کرب محسوس نہیں ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں موجود کسی بیٹی کی طرف غور سے دیکھ لیں اور ان کی معصوم اداوں پر غور کریں تو ان کو آسانی سے سمجھ آجائے گا کہ آخر یہ باپ کہتا کیا ہے اور مانگتا کیا ہے؟ یہ باپ دو مہینے سے ایک ہی مطالبہ دہرا رہا ہے وہ یہ کہ میری بیٹی کو عدالت میں پیش کیا جائے اور مروجہ ملکی قوانین کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔
یہ باپ کہتا ہے پولیس نے اپنا کام نہیں کیا ورنہ میری بیٹی کو عدالت میں لانے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی۔ یہ باپ جب جب اس بے حس معاشرہ کی باتیں سنتا ہے ایسے میں یہ ہر روز مر کر پھر زندہ ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں درد ہے جس کا اظہار یہ میڈیا پر ، وکلاء اور سماجی کارکنوں کے سامنے کرتا ہے۔ رمضان کے اس مقدس مہینے میں مسلمانوں کے اس دیس میں اس کا کرب محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کو قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے کسی جرات مند اہلکار نے ایک بار گلے سے لگاکر یہ امید نہیں دلایا ہے کہ ہم آپ کی بیٹی کو آپ کے پاس لے کر آئیں گے، آپ سے ملائیں گے ، آپ کو اپنی بیٹی کو سینے سے لگانے کا موقع فراہم کریں گے۔
اس بے رخی کے باوجود اس خوفناک دردندہ صفت معاشرے میں اس باپ نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ عظیم باپ آخری دم تک ہمت نہیں ہارے گا۔ جو باپ اپنی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں ، جن کے گھروں میں ننھنی ننھنی پریاں جیسی بیٹیاں ہیں وہ اس باپ کے دکھ درد کو سمجھ سکتے ہیں۔ مجھے روز اس کا چہرہ دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میں اس باپ کے لئے روز یہ دعا کرتا ہوں کہ اس کو اپنے بیٹی سے ملنا نصیب ہو۔ کتنی آس اور چاہت سے اس نے اپنی بیٹی کو پالا ہوگا ۔
اس باپ کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی ایک ہونہار طالبہ تھی، وہ قران پڑھتی تھی ، وہ روز عبادت کرتی تھی۔ وہ کہتا ہے میری بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے ، میری بیٹی کو مجھے سے ملایا جائے ، میں ان کو سینے لگانا چاہتا ہوں۔ اس عظیم باپ نے دو مہینے سے نہ ڈھنگ سے کھایا پیا ہے ، نہ سویا ہے اور نہ سکون سے بیٹھا ہے۔ مگر ظالم معاشرہ اتنی بے حسی سے اس کے کرب کو نظر انداز کر رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں چل سکتا . یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہوا تو ایسے ہی کسی مظلوم اور بےبس کسی باپ کی بد دعا سے تباہ و برباد ہوگا۔
فلک نور کے والد سخی احمد جان کو میرا سلام ہو۔
ایسی صورتحال سے متعلق فیض احمد فیض نے بہت خوب کہا تھا۔
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو
اغیار اٹھا کر لے جائیں
اس دیس کے ہر اک حاکم کو
سولی پہ چڑھانا واجب ہے
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر
پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جاں کے رکھوالے
خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں
آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں
ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی
چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر
دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں دولت شرفاء سے
نا جائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے
عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر
سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک حاکم کو
سولی پہ چڑھانا واجب ہے