کالمز

فلک نور واقعہ: بات مرضی کی نہیں ۔ ۔ ۔

"فلک نور” ۔ ۔ ۔ یہ نام رکھتے ہوئے اس کے والدین نے کتنا سوچا ہو گا، کہ دنیا ان کے اولاد کو اس نام سے پکارے، اور وہ دنیا میں اپنے نام کے ساتھ اپنے والدین کا نام بھی "نور” کی طرح روشن کرے اور یہ روشنی "فلک” سے بھی اونچا ہو ۔  ان کے آنکھوں میں یقینا کچھ خواب ہونگے، جن کی وجہ سے انہوں نے یہ نام رکھنے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ انہوں نے اور نام بھی سوچے ہونگے، کچھ رشتہ داروں اور خیر خواہ لوگوں سے بھی مشورہ کیا ہو گا؟

"فلک” کے معنی آسمان، اور "نور” یعنی روشنی ۔ ۔ ۔اس نام کے معنی اور اس کے پیچھے چھپے ان کے والدین کے خواب بلکل عیاں ہیں، کہ ان کے والدین اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کو کہاں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور یقناً وہ اپنے ان خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنے بساط کے مطابق انہیں پڑھا بھی رہے تھے، اور فلک نور ایک مقامی اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی، اور علم کے عظیم مقصد اور روشنی سے فیض یاب ہو رہی تھی۔

پھر کیا ایسا ہوا ھو گا، کہ فلک نور زندگی کے اس عظیم مقصد کو چھوڑ کر کسی اور مقصد کے پیچھے چلی گئی؟ مجھے نہیں معلوم کہ فلک نور کو زبردستی اغوا کیا گیا ہے یا پھر اپنی مرضی سے چلی گئی ہے۔اس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ لیکن یہ جانتا ہوں کہ کچھ تو ہوا ہوگا، جو اتنے بڑے سانحے کا سبب بنا۔

فلک کے والد  کا وقت یقیناً محنت مزدوری میں ہی نکل جاتا ہو گا، تاکہ گھر کا چولہہ چل سکے، اور فلک کی ماں کا وقت کھانا اور کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ  گھر کے دیگر کاموں میں بیت جاتا ہو گا، انہیں کیا خبر کہ ایک دن انہیں اس صدمے سے گزرنا پڑے گا۔ انہیں کیا معلوم کہ جس بیٹی سے وہ جو امیدیں اور آس لگائے بیٹھے ہیں، وہ اپنی زندگی کسی اور سے وابسطہ کر چکی ہے، ان کے خواب وہ نہیں، جو ان کے والدین دیکھ رہے ہیں۔ اس کے زندگی کا مقصد وہ نہیں، جو ان کے والدین نے ان کے لیے سوچ رکھاہواہے۔

ٹھیک ہے کہ ہر بندے کو اپنی زندگی اپنے انداز میں گزارنے کا پورا حق ہے، لیکن زندگی کے اس کم عمر حصے میں یہ حق کیسا؟ ٹھیک ہے کہ ہر بندے کے کچھ الگ خواب ہوتے ہیں، لیکن اس عمر میں ان کے خواب کیسے؟ دنیا اور زندگی کو ایک حقیقی روپ میں دیکھے بغیر ، صرف معصوم جذبات کی بنیاد پر سوچے اور کئے گئے فیصلوں اور خوابوں  کی حقیقت کیا؟ پھر سامنے والا شخص، جس ے وہ محبت کرتی ہے، اس کے محبت اور جذبات کوسمھجنے  کی صلاحیت کتنی؟ اس کے دل میں فلک نور کے لیے جو پیار ہے، وہ کتنا حقیقی اور اس میں کتنی سچائی ؟ وہ کسی مزموم مقصد کو دل میں چھپائے  کہیں اسے پیار کے جذباتی کہانی میں پھنسا تو نہیں رہا؟ اس سے جڑنے کے بعد کی زندگی کی حقیقت کیا؟ وہ زندگی کیسی ہوگی اور اس آنے والی نئی زندگی کا مقصد  پھرکیا ہوگا؟

یقیناً فلک نور کی عمر ، سوچ اور اس کے زندگی کے تجربے اتنے مضبوط نہیں تھے کہ وہ ان سوالوں کا جواب ڈھوندتی, زندگی اور دنیا کو اس حقیقی روپ میں دیکھتی، یا  پرکھتی، سوچتی اور فیصلہ کرتی ۔ ۔ ۔

یہی وجہ ہے کہ شرعی اور قانونی طور پر 18 سال سے کم عمر میں شادی کو غیر قانونی اور غیر شرعی قرار دیا گیا ہے۔یہی نہیں بلکہ کم عمری میں ڈرا ئیونگ لائسنس بھی نہیں ملتا اور گاڑی چلانے کی بھی سخت ممانیت ہوتی ہے۔ زندگی کے اس حصے میں جا ئیداد کے ساتھ اور دنیاوی مسلوں سے متعلق کوئی بھی فیصلہ سازی میں حصہ نہیں لے سکتے، اور کم عمری میں کئے  گئے جرا ئم کو بھی قانونی اور عدالتی طور پر الگ نظریے سے دیکھی جاتی  ہے۔

فلک نور عمر کے جس حصے سے گزر رہی تھی، یہ عرصہ انسان کی زندگی کا سب سے کھٹن اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اور انسان اس عمر میں بہت تیزی سے تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے، اس عمر میں جذباتیت تیزی سے بڑھنے لگتی ہے، بچہ پہلی دفعہ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس کی ڈیمانڈز اور خواہشات بڑھنے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عمر کے اس حصے میں اکثر بچے اپنے والدین سے ناخوش اور مایوس نظر آتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے والدین ان کی ضروریات کو پورا نہیں کر رہے ہیں، یا ان کی بات نہیں سنی جا رہی ہے، انہیں اور ان کے خواہشوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، انہیں اپنے مرضی کے کام کرنے نہیں دیا جا رہا اور گھر کے فیصلوں میں بھی انہیں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔ کچھ لڑکیوں کو ایسا بھی لگتا ہے کہ بیٹے کو زیادہ توجہ دی جارہی ہے، اور اس کے ضروریات پوری کی جارہی ہے، اس کا خیال لڑکیوں کی نسبت زیادہ رکھا جا رہا ہے۔ ۔۔ایسے میں جب کو ئی باہر کا بندہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے تو انہیں لگتا ہے کہ کو ئی تو ہے، جو ان کے والدین سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے، اور ان کی ضروریات کا والدین سے زیادہ خیال رکھ رہا ہے، یا رکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ان غیر حقیقی خوشیوں اور خواہشوں کو ان سے وابسطہ کرنے لگتے ہیں۔جبکہ حقیقت ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت والدین کاپیار زیادہ مضبوط اور طویل مدتی بنیاد پر ہوتا ہے، اور وہ اپنے بچوں کی ضروریات اور خواہشات  کو اپنے محدود وسا ئل کے باوجود ایک حقیقی روپ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دنیا میں والدین کے پیار کا کو ئی نعیم البدل نہیں ہے۔ ہر والد یا والدہ اپنے اولاد کو خود سے بہتر بنانے اور دیکھنے کی کوشش ہوتی ہے،۔ دنیا میں صرف والدین ہی ہیں، جو  حقیقی طور پر اپنی اولاد کو خود سے بہتر دیکھنا چاہتے ہیں، اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اولاد کی زندگی ان سے بہت بہتر ہو۔

بچوں اور معاشرہ، دونوں  کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو سمجھے اور ان کو قدر  کی نگاہ سے دیکھے، اور ساتھ ساتھ قانونی اور شرعی چیزوں کو بھی سمجھے، کہ  کم عمری میں کئے گئے فیصلے نہ صرف قانونی طور پر جرم ہے، بلکہ غیر شرعی بھی ہیں، اور وہ اپنے عمر کے اس حصے میں ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کریں، تاکہ قانونی اور شرعی طور پر ان سے بچا جاسکے، اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کی جاسکے۔

فلک نور کا کیس اس وقت عدالت میں چل رہا ہے اور یقیناً عدالت اس کیس کو اسی نظرئےسے دیکھی گی اور اپنا فیصلہ سنائی گی۔ امید ہے کہ عدالت فلک نور کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھے گی اور اپنا فیصلہ دے  گی اور اپنے فیصلے کے ذریعے ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرے گی، تاکہ ہمارے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام اور تاثر ملے کہ کم عمری میں کئے گئے فیصلے قانونی اور شرعی دونوں لحاظ سے غلط ہے، تاکہ آیندہ ایسے سانحات سے ممکنہ طور پر بچا جا سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button