کالمز
عبدالحمید خان صاحب اور ان کے احباب
یہ عبدالحمید خان اور نواز ناجی صاحب کے اختلاف کا دور تھا. میں تب کراچی میں تھا.طالب علمی کا زمانہ تھا. اخبار میں لکھنا شروع کیا تھا. بالاورستان نیشنل فرنٹ ( نواز و حمید گروپ) کے کئی پروگرامز میں بطور سپیکر، جی بی کے صحافیوں کا نمائندہ گفتگو کرنے کا موقع ملا. گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹس کراچی کے احباب مجھے صحافیوں کی طرف سے بات کرنے کے لیے کہتے. کئی پروگراموں میں اپنی ذاتی حیثیت سے بھی بات کی. تب دیامر اور غذر کے سینکڑوں نوجوان طلبہ بڑے پرجوش تھے. وہ بالاورستان نیشنل فرنٹ کے باقاعدہ ورکر اور ممبر تھے. . ان کو فنڈنگ ہوتی تھی تاکہ وہ بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرکے علیحدگی کی بات کریں اور ذہن سازی کریں. ہمارے کئی دوست صف اول کے رہنما تھے. بعد میں اکثر توبہ تائب ہوئے. یہ سب چیزیں وہ چھپاتے بھی نہیں تھے.
یہ 2021 کی بات ہے. ہماری ایک بڑی گیدرنگ جی ایچ کیو میں جنرل باوجوہ کیساتھ تھی. میں نے تین سوالات کیے تھے. ایک مفصل سوال نام لیے بغیر عبدالحمید خان صاحب کے بارے میں تھا. تب سے اب تک ہم Chatham house rules کے پابند تھے.
"چاٹم ہاؤس رولز” کے اصول ایسی ہدایات ہیں جو میٹنگز یا کانفرنسز میں کھلے اور ایماندارانہ مباحثے اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان اصولوں و ضوابط کے تحت، شرکاء کو موصول ہونے والی انفارمیشن کو استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، تاہم وہ رازداری کے پابند ہوتے ہیں.
یہ اصول مکالمہ و مباحثہ کے لیے ایک محفوظ ماحول پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، تاکہ معلومات اور آراء کو بلا خوف و خطر شیئر کیا جا سکے۔ یہ اصول عموماً تھنک ٹینکس، پالیسی مباحثوں، اور اسی طرح کے ماحول میں استعمال ہوتے ہیں، جہاں حساس موضوعات پر بات چیت کی جاتی ہے، جس سے صاف گو، گفتگو کو فروغ ملتا ہے اور شرکاء کی رازداری محفوظ رہتی ہے۔
اللہ کے رسول نے اس اصول کو ” المجالس بالامانۃ” کے جملہ سے بیان کیا ہے.
اس وقت عبدالحمید صاحب ریاست کے مہمان تھے. اب چونکہ وہ باقاعدہ توبہ تائب ہوکر وفاقی جماعت کا نگینہ بن چکے ہیں تو ہم بھی Chatham house rules سے ذرا سی اجازت لے کر احباب سے جنرل باوجوہ صاحب کے مفصل جوابات کا کچھ حصہ شیئر کرنا چاہتے ہیں.
جنرل باجوہ صاحب نے کہا ” آپ عبدالحمید کی بات کررہے ہیں. آپ کو معلوم ہے کہ ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے. ہم سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے. جب سب کچھ ہم پر ظاہر ہے اور بندہ پیشمان بھی ہے تو لازمی بات ہے اس کے ساتھ مجرموں والا سلوک تو نہیں کیا جاسکتا ہے. رحم اور ھمدردی والا سلوک ہی ہوسکتا ہے. لہذا ریاست کبھی اسکو یا کسی کو خوامخواہ مجرم بنا کر کیوں رکھے؟”
تب ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ عبدالحمید صاحب کے مستقبل قریب میں وارے نیارے ہونگے. باقی جنرل باجوہ صاحب کے پاس جی بی کے متعلق جو مفصّل معلومات تھیں جو انہوں نے ان اچانک کیے جانے والے سوالات کے جوابات میں کہے تھے، سن کر شدید حیرت ہوئی کہ ایک سپہ سالار کے پاس اتنی مفصّل اور دو ٹوک انفارمیشن بھی موجود ہیں.
باقی سوشل میڈیا میں بہت سے احباب عبدالحمید خان صاحب نے پیپلز پارٹی میں شرکت کے حوالے سے گفتگو کی محفل سجا رکھی ہے، تو انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ان کے ماضی اور ان کے ماضی کے ساتھیوں کو طعنے دینے کی ضرورت ہے. یہ سب کچھ چلتا ہے "ان کو اونچا اڑانے کے لیے”.
تو اڑنے دیں نا یار. کیوں کسی کی، یاد ماضی کو عذاب بنا رہے ہو.
صرف حمید صاحب اکیلے تو نہیں اڑے ہیں، ان کے کئی ساتھی پہلے ہی لمبی اڑان بھرچکے ہیں اور کئی محو پرواز ہیں اور کئی پرتول رہے ہیں پرواز کے لیے. زندگی ایسے ہی چلتی ہے. سوچ و فکر اور عمل میں تبدیلی آنا کوئی بری بات نہیں. انسان تدریجا افکار و اعمال میں تبدیلی کا مرتکب ہوجاتا ہے. ترقی یافتہ معاشروں میں اس کو برا نہیں منایا جاتا. بلکہ بہت دفعہ ایسے افکار و اعمال کا خیرمقدم کیا جاتا ہے. ہر وقت لٹھ لے کر پیچھے پڑنا نہیں ہوتا ہے.