کالمز
"کھڑکی بھر چاند”، سلیمی صاحب کا اولین ناول
تحریر : نیاز احمد نیازی
"شکست۔آرزو” اور ” دشتِ آرزو” کے بعد سلیمی صاحب کی تمناؤں کو واقعی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ اور آرزوؤں کا یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا ۔۔۔۔۔ پھر "حدیثِ دل” کے نام سے تقریباً دس سال قبل آپ کی تیسری کتاب منظر پر آئی۔اس طویل عرصے کے دوران سلیمی صاحب ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیھٹے رہے، بلکہ ملکی سطح کے بڑے جرائد و رسائل میں تسلسل کے ساتھ چھپتے رہے۔
پورے دس سال بعد جون 2024 میں آپ کی مجموعی طور پر چوتھی کتاب اور پہلا ناول "کھڑکی بھر چاند” منصہ شہود پر آگیا ہے۔یہ کتاب نواب سنسز پبلی کیشنز راولپنڈی کے زیرِ اہتمام اعجاز احمد نواب نے فیض الاسلام پرنٹرز راولپنڈی سےشائع کی ہے۔ ابتدائی طور پر 500 نسخوں کی تعداد میں شائع ہوئی ہے۔ اور ناشر کو یہ اختیار دیا گیا ہےکہ ضرورت کے مطابق وہ مزید کاپیاں شائع کرسکے گا۔
کتاب کا سرورق خاوری صاحب نے ترتیب دیا ہے۔یہ ناول کل 352 صفحات پر مشتمل ہے۔سرورق پر خوبصورت وادی کے دامن میں پہاڑوں کے درمیان چاند کو نمودار ہوتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔
بیک ٹائٹل پر مصنف کا اسکیچ بنا ہوا ہے اور ساتھ آپ کی دیگر تین تصانیف کے سرورق بالترتیب دئیے گئے ہیں۔
کتاب کی قیمت 1000 روپے رکھی گئی ہے تاہم خود مصنف سے کتاب خریدنے پر 40 فیصد خصوصی رعایت دی جائے گی۔ کتاب کے اندورنی ٹائٹل پر "من آنم کہ من دانم” کے عنوان سے مصنف کا اپنے ادبی سفر اور موجودہ ناول کے حوالے سے مختصر مگر جامع مضمون شامل ہے۔
ناول کا انتساب گلگت بلتستان کے معروف شاعر جمشید خان دکھی کے نام منسوب ہے۔انتساب میں سلیم سلیمی صاحب رقم طراز ہیں کہ:
"گلگت کے شاعر درد جمشید خان دکھی (مرحوم) کے نام ۔۔۔جو اخلاقیات،ادبیات اور احترام آدمیت کا روشن ستارا تھے۔”
اپنے فن کے حوالے سے احمد سلیم سلیمی صاحب بااعتماد نظر آتے ہیں اور اس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ملکی و علاقائی سطح کے کسی بھی ادیب سے اس کتاب کے حوالے سے کچھ نہیں لکھوایا۔
کتاب کے لیے عام سادہ کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے یہ سلیمی صاحب کی کنجوسی سمجھے یا کچھ اور ۔۔ اگر معیاری کاغذ استعمال ہوتا تو "کھڑکی بھر چاند” کو مزید چار چاند لگ جاتے۔
املا کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور پروف ریڈنگ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
بنیادی طور پر اس ناول کی کہانی ماہنامہ جاسوس ڈائجسٹ کراچی سے 2022 میں "عشقِ ناتمام” کے عنوان سے قسط وار شائع ہوتی رہی اور اب پوری کہانی ایک ساتھ ناول کی شکل میں اشاعت کے مراحل سے گزر کر قارئین کے لیے دستیاب ہے۔
اس کہانی میں سلیمی صاحب نے خطروں میں گھری محبت اور فطرت کی لازوال داستان کو بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ کہانی کا پس منظر گلگت بلتستان کے قبائلی روایات پر مشتمل ایک ضلعے کے دیہاتی ماحول سے ملتا ہے ۔ جہاں رسوم و رواج کی پابندی اور مہمان نوازی کی روایتوں کی خوب منظر کشی کی گئی ہے۔ اس کہانی میں ٹمبر مافیا اور فاریسٹ (ڈپارٹمنٹ) کے ذمہ داران کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر لگائی گئی قدغوں کو بھی بےنقاب کرنے کی کوشش کی ہے, اور اس کے علاوہ عشق کو بےخطر آتش میں کودتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔
اس کہانی میں موصوف نے فلیش بیک ٹیکنیک کا شاندار استعمال کرتے ہوئے مادوپور وادی کے حادثات کو حال اور تھلچون گاؤں کے واقعات کو ماضی کے مختلف زاویوں سے کرداروں کے زریعے پیش کیا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار سلمان احمد اور حنا ہیں جبکہ جمشید, جمدر, نمبردار عنایت اللہ, فقیر اللہ, کفایت اللہ اور انسپکٹر فیاض علی ضمنی کرداروں میں شامل ہیں۔
اس ناول میں حرص و لالچ میں غرق ٹمبر مافیا کے کرتوت سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور اپنے ذاتی فائدے کے لیے شریف ترین لوگوں کو مخبر بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سلیمی صاحب نے معاشرے میں پائے جانے والی کئی برائیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے جو اب بھی اسی سوچ کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں کہ بچپن میں کیے گئے رشتے بالکل ٹھیک ہوتے ہیں، اس میں لڑکی کی خواہش کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ماں باپ یا رشتہ دار جو کہیں گے وہی حرف۔آخر ہوگا۔ بچیوں کی تعلیم کی مخالفت اور لڑکیوں کو اپنے گاؤں سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے پر سخت اعتراضات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مجموعی طور پر اس ناول میں دیہاتی زندگی اور وہاں کے مناظر کی خوب منظرنگاری کی گئی ہے۔
مادوپور وادی کے مناظر پیش کرتے ہوئے کہانی کے آغاز میں سلیمی صاحب رقم طراز ہیں:
"مادوپور وادی میں شام اتر آئی تھی۔سفیدہ, شہتوت اور خوبانی کے اونچے اونچے پیڑوں کے نیچے سائے لمبے ہونے لگے تھے۔ یہ وادی بلند پہاڑوں کے دامن میں, ڈھلوانی علاقے میں تھی۔ کہیں کھلے کھیت تھے اور کہیں ایک ہی جگہ بہت سے مکان بنے ہوئے تھے۔وادی میں درختوں کی بہتات تھی, کہیں سرسبز ٹیلے موجود تھے۔ پھر ایک طرف خشک چٹیل پہاڑ تھے۔”
اس ناول میں عشق کی ایک ایسی کہانی بیان کی گئی ہے جو ایک طرف تمام رسوم و رواج کی پابندیاں توڑتے ہوئے مظالم کا سامنا کرتے ہوئے اپنی محبت کی خاطر جان قربان کرنے والے کرداروں کو دکھایا گیا ہے، تو دوسری طرف انتقام کی آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس کہانی کا پلاٹ گلگت بلتستان کے بلند و بانگ پہاڑوں کے درمیان حسین و جمیل وادیوں میں چھپی ایک منفرد قبائلی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیاہے۔
پوری کہانی میں جابجا رومانس،ہمدردی،جبر و قہر،محبت، نفرت، نیکی، بدی، معافی،بدلہ اور قربانی کے جذبات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
ناول کے لیے جامع مکالمہ نگاری اور کردار نگاری کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ سلیمی صاحب نے مکالمے کا حق بھی بھرپور ادا کیا ہے اور جیتے جاگتے کرداروں کے ذریعے ناول میں خوب سنسی خیزی پیدا کرکے قاری کو متجسس بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جذبات نگاری, مرقع کشی, حقیقت نگاری,مقامی و دیہاتی زندگی کی ترجمانی, جزئیات نگاری سمیت ذاتی مشاہدہ کی گہرائی کے اثرات کھل کر سامنے آتے ہیں۔
پوری کہانی میں سلیمی صاحب نے سادہ اور عام فہم اسلوب اختیار کرتے ہوئے بہترین انداز میں بات سے بات نکالنے کی کوشش کی ہے۔ قبائلی علاقوں کی تاریخی و تہذیبی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے خوب صورت انداز میں فطری مناظر کی مرقع کشی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔متانت اور سنجیدگی اپنی شخصیت کی طرح کہانی میں بھی نظر آرہی ہے۔ مکالمہ نگاری میں کرداروں کا حقیقی رنگ جھلکتا نظر آتا ہے اور جذبات و احساسات کی لاشعوری کیفیات اور تصورات کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ پوری تحریر میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے اور ایک مخصوص ماحول میں کسی قبائلی خطے کی اچھی ترجمانی کی ہے۔ تجسس کا عنصر اس قدر زیادہ ہے کہ ہر صفحہ پڑھنے کے بعد قاری یہی سوچ رہا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہوا ہوگا اور اسی تشنگی کی وجہ سے پوری کہانی پڑھنے پر مجبور ہوتا ہے۔
آخر میں جناب احمد سلیم سلیمی صاحب کو ان کی نئی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا کہ مجھ ناچیز کو اس قیمتی کتاب کا نسخہ بطور تحفہ پیش کیا جو کہ میرے کسی بھی اعزاز سے کم نہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کامیابیوں سے نوازے آمین۔