میر آف ہنزہ میر محمّد جمال خان
حالاتِ زندگی اورگلگت بلتستان کی جنگ آزادی اور اس کے پاکستان سے الحاق میں ان کا کردار
یوں تو انسانی تاریخ کے طویل دورانیے میں بے شمار ایسے افراد ہو گزرے ہیں جنہوں نے تاریخ کا رُخ موڑنے اور اسے نئی راہوں پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم،ان لاتعداد انسانوں میں سے دو طبقے انسانی تاریخ پر زیادہ اثر انداز ہوتے رہے ہیں: پہلا طبقہ تو علماء، حکماء، فلاسفہ اور مفکّرین کا ہے جو اپنے فکر و فلسفے، علم و دانش اور تصوّرات و نظریات کے بل بوتے پر انسانی تاریخ میں انقلاب لاتے رہے ہیں؛ جبکہ دوسرا انسانی طبقہ وہ ہے جن کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار رہا یعنی حکمران طبقہ، جن میں بادشاہ، سلاطین، نواب، راجے مہراجے اور میران و مہتران وغیرہ شامل ہیں۔زیرِ بحث موضوع موٌخّر الذّکر طبقے کے ایک نمائندے یعنی ریاستِ ہنزہ کے آخری فرمان روا میر محمّد جمال خان سے متعلّق ہے جنہوں نے گلگت۔ بلتستان کی جنگ آزادی (1947)کے ہیروز کے سرگروہ تھے۔
1947کا سال برِّ صغیر ہند کی تاریخ میں سیاسی لحاظ سے انقلابی تبدیلیوں کا سال تھا۔ کیونکہ اس سال کے وسط میں ہندوستان قطعی طور پر دو حصّوں میں بٹ گیا۔ 14/ اگست 1947کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا جبکہ 15/ اگست کو بھارت کے قیام کا اعلان ہوا۔ پاکستان کے قیام کے نتیجے میں شمالی علاقہ جات یعنی گلگت۔ بلتستان پر بھی دُور رس اثرات مرتّب ہوئے۔ اس وقت اس خطے پر مہا راجہ کشمیر ہری سنگھ کی سرکردگی میں ڈوگروں کی حکومت تھی۔ ان کا گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ اپنی پوری عسکری اور انتظامی طاقت کے ساتھ تختِ گلگت پر براجمان تھا۔ لیکن ارضِ شمال کی عوام بھی اپنی دوسری ہندوستانی مسلمان برادریوں کی طرح پاکستان کی پُر جوش حمایتی تھی۔ اہالیانِ شمال نے نہ صرف قولاً اس حمایت و وابستگی کا اظہار کیا بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ انہوں نے جذبہئ دینی و قومی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی مقامی ملیشیا، گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر ڈوگرہ راج کا مقابلہ کیا اور اسے اپنے دیس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکال باہر کیا۔ اہالیانِ شمال نے ڈوگروں کے ساتھ اپنی اس مسلّح لڑائی کا نام جنگِ آزادی رکھا۔
اس جنگِ آزادی میں اگرچہ گلگت۔ بلتستان کے تقریباً تمام طبقوں، قوموں، مذہبوں، علاقوں اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلّق رکھنے والے افراد کا برابر کا حصّہ تھا۔ تب تو اہالیانِ شما ل کو آزادی نصیب ہوئی۔لیکن ان سب کا تفصیلی تذکرہ اس علمی کاوش کے دائرے سے باہر ہے۔ اس میں صرف میر آف ہنزہ میر محمّد جمال کے کردارکو زیرِ بحث لانا ہے۔ اس سے پیشتر کہ میر آف ہنزہ کے گلگت کی آزادی کے لئے کردار و خدمات کا ذکر کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میر کے حا لات زندگی اور ان کی سیاسی، سماجی اور دینی حیثیت اور مقام کا مختصرجائزہ لیا جائے تاکہ خطّے کی آزادی اور پاکستان سے اس کے الحاق میں ان کے کردار کے بارے میں گفتگو کی تفہیم میں آسانی ہو۔
میر آف ہنزہ، میر محمّد جمال خان ریاستِ ہنزہ کے حکمران خاندان، ”خاندانِ اَیَش“ کے آخری تاجدار تھے۔ان کا شجرہئ نسب یوں ترتیب پاتا ہے: میر محمّد جمال خان ابن میر غزن خان دوئم ابن میر محمّّد نظیم خان ابن میر غزن خان اوّل ابن میر غظنفر علی خان ابن میر سلیم خان ثالث ابن خسرو خان ابن شاہ بیگ ابن شاہ عبّاس ابن شاہ سلطان ابن اَیَشو دوئم ابن میوری تھم ابن شاہ خان(اَیَشو اوّل)، جس کی شادی نور بی بی بنت گِر کِس سے کرائی گئی۔ ان دونوں کی نسل سے خاندانِ اَیَش کی بنیاد پڑی اور صدیوں تک ہنزہ میں ان کی خاندانی ریاست قائم رہی۔
میر محمّدجمال خان 23 ستمبر 1912کو بلتت ہنزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہنزہ میں اور پھر ثانوی تعلیم گلگت اور کشمیر میں حاصل کی۔1934 میں انہوں نے والیئِ نگر میراسکندر خان کی صاحبزادی شمس النّہار سے شادی کی۔1945میں وہ اپنے والد میر غزن خان کی وفات کے بعد ہنزہ کے میر بن گئے اور 1974میں اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جناب ذولفقار علی بھٹومرحوم نے ریاستِ ہنزہ کو تحلیل کیااور یوں میر جمال خان میر کے منصب سے برطرف ہوئے۔جبکہ اس سے قبل بھٹو مرحوم نے 1962میں گلگت۔ بلتستان کی دیگر ریاستوں کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اس حکومتی اقدام کے نتیجے میں دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ صدیوں سے قائم ہنزہ کی موروثی خاندانی ریاست اپنے اختتام کو پہنچی۔ہنزہ کے یہ آخری میر 18مارچ 1976میں کریم آباد ہنزہ میں وفات پاگئے اور اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔
میر جمال خان اپنے ہمعصر راجگانِ گلگت و۔ بلتستان میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ کیونکہ انہوں نے دوسرے ہمعصرراجوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم حاصل کی تھی، دینی و سماجی عہدوں کی سربراہی نے انہیں ملکی اور عالمی سطح کی سوچ اور بصیرت عطا کی تھی، وہ عمدہ انگریزی بولتے تھے اور مقامی اور بین الاقوامی حالات و سیاسیات سے خوب باخبرتھے۔ ایک لحاظ سے وہ ارضِ شمال کے ایک ممتاز سیاسی و سماجی دانشور بھی تھے۔ ان کی شخصیت اور تعلیم و تعلّم کے بارے میں میجر الیکزینڈر براؤن اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ”ہنزہ کے میر محمّد جمال خان تقریباً ۵۳ سال کی عمر کے ایک خوبصورت شخص تھے، جن کی شکل و صورت کسی حد تک سُرخ و سفیدرنگت کی حامل تھی۔۔۔ جمال خان کی عادات واطوار معصومانہ تھے اور وہ عمدہ انگریزی بولتے تھے۔ وہ مکمّل طور پر اعلیٰ خاندانی مرتبہ کے حامل ایک شخص تھے۔“ ۱؎
Telegram by Wirless Telegraph, Gilgit, 3 November 1947To Qaid-Azam
Governor General PakistanI declare with pleasure on behalf of myself and my State accession to Pakistan.
Mir of HunzaSigned: Mohammed Jamal Khan
Mir of Hunza
Camp Gulmit 3 November 1947
Copy to:
1. His Highness Sir Agha Khan,
C / O Agha Majid Khan, Agha Saloom, Bombay
2,. Colonel R N Bacon, Political Agent Kheyber,
Kheber House, Peshawar
میر آف ہنزہ کی پاکستان سے دلی وابستگی اور اس سے الحاق کی شدید خواہش اس الحاق سے پہلے سے ہی تھی۔کیونکہ سر آغاخان سوئم حضرت سلطان محمّد شاہ اسماعیلیوں کے 48ویں موروثی امام ہونے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی صدر بھی رہ چکے تھے اور تحریک و تشکیلِ پاکستان کے بانیوں میں سے ایک تھے جبکہ میر آف ہنزہ اور ہنزہ کی عوام کی بہت بڑی اکثریت اسماعیلی ہونے کے ناطے سر آغاخان کی مرید تھی اور ہنزہ کے اسماعیلی پیروکار اپنے امام کے طابع فرمان تھے۔اس لئے ہنزہ کے میر اور عوام دل و جان سے پاکستان کے حامی اور اس سے الحاق کے متمنّی تھے۔نیز یہ کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمّد علی جناح (م۔ 1948)کا مسلکی تعلّق تاریخی لحاظ سے اسماعیلیت سے تھا۔ کیونکہ ان کے والد مسٹر پونجا جناح سندھ کے ایک سرگرم خوجہ اسماعیلی تھے جبکہ جناح کے ماموں بھی اسماعیلی سیٹ اپ میں ایک عہدے دار تھے اور ان کا خاندان چھیالیسویں اسماعیلی موروثی امام حضرت امام حسن علی شاہ آغاخان اوّل کے ہمراہ ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آیاتھا۔
ڈاکٹر جی۔ الانہ مرحوم، جو قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں اور مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک تھے، نے اپنی کتاب Quaid-i Azam Jinnah: The Story of a Nation جس کا اردو ترجمہ’قائد اعظم جناح: ایک قوم کی سرگزشت‘ کے نام سے رئیس امروہوی نے کیا ہے،میں اس کی تفصیلات دی ہیں۔
یہاں میر آف ہنزہ کی بات ہو رہی تھی توحقیقت یہ ہے کہ میر موصوف کے تعلّقات قائد اعظم کے ساتھ بھی تھے۔ یوں میر جمال خان قیام پاکستان کے مقاصداور سرگرمیوں سے خوب آگاہ تھے۔ یہی وہ پس منظر ہے کہ جس کی بنیاد پر ہنزہ کے میر اور عوام نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اس کے ثبوت میں بہت سے مزید تاریخی واقعات شہادت کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں۔
ایک روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ جب گلگت میں ڈوگرہ راج اپنے آب و تاب کے ساتھ قائم تھا اور اس کا گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ گلگت میں مقیم تھا اور ڈوگرہ فوج کیل کانٹوں سے لیس ہو کر گلگت میں کسی بھی قسم کی بغاوت اور مہم جوئی سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار تھی تو اس دوران میر محمّدجمال خان نے سرینگر میں سردار ابراہیم خان سے ملاقات کرنے کے بعد وہاں سے واپسی پر گلگت میں اپنے قیام کے دوران اپنے بعض دوستوں کو پاکستان کا پرچم دکھایا تھا اور ہنزہ چلے گئے تھے۔
ورنہ ڈوگرہ انتظامیہ حرکت میں آتی اور بنا بنایا منصوبہ ناکامی کا شکار ہو جاتااور قوم کوآزادی کے ثمرات حاصل کرنے میں بے حد مشکلات درپیش آسکتی تھی۔ یقینا،ً یہ حکمت عملی میر صاحب کی ہوشیاری، دُور اندیشی، سیاسی بصیرت اور پاکستان سے وفاداری بشرطِ استواری کو ظاہر کرتی ہے جو بالآخر الحاق پاکستان کے لئے کارگر ثابت ہوئی۔ غلام رسول موصوف میر صاحب کے اس نجی خط کو محض سیاسی بیان قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ”یہ حکمرانوں کے سیاسی بیانات ہوتے ہیں۔ اس میں حقیقت کا عنصر کم ہوتا ہے۔“ ۷؎
ایک اور واقعہ جو اس ضمن میں بڑی اہمیّت رکھتا ہے وہ 30/ اکتوبر 1947کا ہے جو گلگت اسکاؤٹس کے کمانڈر میجر براؤن کے حوالے سے ہے۔
ترجمہ:۔ ”اپنے کمانڈنٹ صاحب سے کہہ دو کہ ”میں مسلمان ہوں اور میرے لوگ ]یعنی ہنزہ کی عوام بھی[ مسلمان ہیں۔ کیا ہم بے دین ہیں کہ ہم ہندوستان سے ملیں یا آزاد ہو کر الگ تھلگ رہیں؟ ہمارے پاس جانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پاکستان کا اور ہم پاکستان میں شمولیت اختیار کریں گے۔“
میجر براؤن کے علاوہ، بقولِ غلام رسول، اُس وقت کی جنگِ آزادی کے ایک فوجی آفیسر لیفٹیننٹ غلام حیدر،جو اس جنگ میں سرگرمِ عمل تھے، نے اپنی ڈائری میں میر آف ہنزہ کی مذکورہ ٹیلیفونک گفتگو کی توثیق کی ہے کہ میر نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ ۹؎
یہاں ایک اور اہم نکتہ غور طلب ہے کہ کیا میرانِ ہنزہ و نگرآئینی و انتظامی لحاظ سے یہ استحقاق رکھتے تھے کہ وہ ریاستِ کشمیر کی اجازت کے بغیر اپنی ریاستوں کا الحاق پاکستان سے کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برطانوی حکومت نے مہاراجہئ کشمیر کو بالادست طاقت(suzerain power)کے طور پر تسلیم کیا تھا نہ کہ مطلق العنان اور خود مختارفرمانروا (sovereign power)کی حیثیت سے۔اگرچہ بالادست طاقت یا بڑی ریاست چھوٹی ریاستوں سے باج و خراج لینے کا استحقاق رکھتی ہے۔لیکن مقامی راجوں نے اس باج گزاری کو تحفے تحائف کی صورت میں بدل دیاتھا۔ تاہم، بقولِ ڈاکٹر احمد حسن دانی، انہوں نے اپنے قلمرو کو ریاستی قلمروکا حصّہ ہونا ہرگز قبول نہیں کیا۔ ۰۱؎
اس طرح مقامی راجے، خاص طور پر میرانِ ہنزہ و نگر اپنے ریاستی فیصلے کرنے میں آزاد تھے۔چنانچہ اس آئینی وانتظامی استحقاق کو بروئے کار لاکر ہنزہ و نگر کے میروں نے بلاتردّد اپنی ریاستوں کا الحاق پاکستان سے کیا جسے مملکت پاکستان کے ارباب اختیار نے شرفِ قبولیت عطا کی، پھر دوسرے راجوں نے بھی پاکستان سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا اور اس کے انتظام و انصرام کے لئے اپنے افسرِ اعلیٰ کو گلگت بھیجا۔
بات جنگ آزادی ئ گلگت میں میر آف ہنزہ کے کردار کی ہورہی تھی تو مذکورہ بالا واقعات اور حقائق کو پیشِ نطر رکھ کر یہ کہنا درست ہو گا کہ میر آف ہنزہ میر محمّد جمال خان مرحوم و مغفور نہ صرف جنگ آزادی و انقلابِ گلگت کے حامی تھے بلکہ اس کے مرکزی قائدین کے سرگروہ اور اس قافلہ عزم و یقین کے قافلہ سالار بھی وہی تھے۔ اور شنید ہے کہ میر ِ ہنزہ مہاراجہ کشمیرکو پاکستان سے کشمیرکے الحاق پر آمادہ کرنے کے لئے سری نگر گئے تھے۔نیز یہ کہ ہنزہ کے لوگوں کے علاوہ غذر کی عوام کی اکثریت بھی ہم مذہب ہونے کے ناطے سے بالواسطہ میرآف ہنزہ کے زیر اثرتھی۔ یہی سبب تھا کہ ہنزہ اور غذرکے جوان اس انقلاب کے ہراول دستے کی حیثیت رکھتے تھے۔اورجنگِ آزادیئ گلگت میں ان کی خدمات قابلِ ذکر اور لائق ستائش ہیں بلکہ آج تک ان میں ایثار و قربانی اور ملک و قوم کی خاطر مر مٹنے کی شاندارروایت قائم ہے۔ خاص طور پر ضلع غذر کے عظیم سپوت حولدار لالک جان شہید نے کارگِل کی جنگ (۹۹۹۱ء)میں اعلیٰ ترین ملکی عسکری ایوارڈ”نشانِ حیدر“حاصل کر کے خطّے کے لئے عزّت و فضیلت کا نشان چھوڑا اور وادی غذر کو ”شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین“ کا ٹائٹل ملا۔ اسی طرح ضلع نگر کی عوام اور قائدین کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں۔
میر آف ہنزہ کے کردار پر بات ہو رہی تو اس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نگر کی اعلیٰ قیادت کی میر ہنزہ سے قریبی رشتہ داری تھی، جیسے میر آف ہنزہ میر محمّد جمال خان کی اہلیہ محترمہ شمس النہار میرِنگر اسکندر خان کی صاحب زادی تھیں جبکہ جنگ آزادی کے عظیم ہیرو صوبیدار میجر بابر خان کی بیوی میر ہنزہ کی ہمشیرہ تھیں۔ ان خاندانی رشتوں اور سیاسی و لسانی ہم آہنگیوں کے سبب اُس وقت ہنزہ و نگر ایک دوسرے سے بہت قریب آچکے تھے۔ بہت سے اہم معاملات میں میر شوکت علی خان میرمحمّدجمال خان موصوف سے مشورے بھی لیتے تھے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ نگر کی لیڈرشپ اور عوام دوسری قوموں سے کمتر تھی بلکہ نگر والے ہوشیار،بابصیرت، باہمّت اور قومی حمیّت رکھنے والے لوگ تھے اور تا حال وہ ان اوصاف کے حامل ہیں۔ لیکن انقلاب کے ان مخصوص حالات میں ایک دوسرے کی حمایت و تعاون کی اشد ضرورت تھی۔خوش قسمتی سے ہنزہ اورنگر کی لیڈرشپ کے مابین بلکہ در حقیقت دونوں ریاستوں کی عوام کے در میان اُس وقت مثالی قریبی دوستانہ تعلّقات تھے۔ میر جمال خان کو نگر کی لیڈرشپ اور عوام دونوں کا اعتماد حاصل تھا۔یہ دَور ہنزہ و نگر کے درمیان صدیوں کی تاریخ میں مثالی خوشگوار تعلّقات کا دوربھی تھا۔بلکہ اُس وقت پورے شمالی علاقہ جات کی تاریخ میں مذہبی و ملّی اور نسلی و علاقائی اتّحاد ویک جہتی کا دَور دَور ہ تھا۔چنانچہ گلگت اور دیامر کے سیاسی و عسکری قائدین کے علاوہ علمائے کرام اور مشائخِ عظّام نے بھی مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکرصرف قومی اتحاد و یکجہتی اور ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر پاکستان کی حمایت میں اپنے اپنے علاقوں میں زوردار تقریریں کیں، عوام کی ذہن سازی کی اوررائے عامہ کوپاکستان سے الحاق کے حق میں تیار کیا۔ اسی اتحاد و یکجہتی، روادار ی اور باہمی اعتماد و دوستی کے نتیجے میں اہالیانِ شمال کو آزادی جیسی نعمتِ عظمیٰ نصیب ہوئی۔بلکہ وسیع ترتناظر میں دیکھیں تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اُس وقت برِّ صغیرہندکے مسلمانوں کے اتّحاد و یکجہتی، نصب العین کے حصول کے لئے سعیئ پیہم اور سیاسی جد و جہد کے نتیجے میں جدید دَور کے سب سے بڑے مسلمان ملک پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
۱۔ Major Alexander Brown. The Gilgit Rebelion,St. Boswells: Ibex, 1998 p.88
۲۔ Major Alexander Brown. The Gilgit Rebellion, p.222
۳۔ گھنسارا سنگھ۔ ’گلگت ۷۴۹۱ء سے پہلے‘، ترجمہ: شیر باز علی خان برچہ، ہنی سارا پبلشنگ نیٹ ورک، گلگت، ۲۰۰۲ء، ص ۲۶
۴۔ ایضاً، ص ۳۶
۵۔ ایضاً، ص ۳۶
۶۔ غلام رسول۔ ’آزادیئ گلگت و بلتستان اور حقائق‘، ون انٹر نیشنل پبلیشرز، راولپنڈی، ۴۰۰۲ء،ص ۳۵
۷۔ ایضاً، ص ۳۵
۸۔ Major Brown. The Gilgit Rebelion, p. 178
۹۔ غلام رسول۔ایضاً، ص ۶۴۱
۰۱۔ Dani. History of Northern Areas of Pkistan, p. 296