کالمز

جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان 

گلگت بلتستان میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی حالیہ اندرون جماعت انتخابی سرگرمیوں نے ایک بار پھر اس جماعت کو مقامی سیاسی منظرنامے میں مرکزی حیثیت دلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سندھ میں مولانا راشد محمود سومرو اور پنجاب میں حافظ نصیر احمد احرار کی قیادت میں نوجوان طبقے کی شرکت سے جمعیت کو ایک نئی روح ملی، جس نے اسے زندہ و جاوید بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں ذمہ داران اور ان کے کارکنوں کی حکمت عملی اور ورک پلان نے تحریکی اور عوامی سیاست کے ذریعے جماعت کو مین آسٹریم پر لایا ۔ یہی ماڈل اور حکمت عملی اب گلگت بلتستان میں بھی دہرائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں بھی جمعیت علمائے اسلام کو مضبوط اور متحرک کیا جا سکے۔
گلگت بلتستان میں حالیہ جے یو آئی انتخابات میں مفتی ولی الرحمان  اور بشیر احمد قریشی کو قیادت کی ذمہ داری ملی ہے۔ یہ قیادت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے جہاں اخباری بیانات سے آگے بڑھ کر عملی سیاست کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تحریکی اور عوامی سیاست میں قدم نہیں رکھا جاتا، عوام کو اس جماعت کی سچی جدوجہد اور مقاصد کا ادراک نہیں ہوگا۔
جے یو آئی کے لیے گلگت بلتستان میں ایک جامع اور مربوط پلان کی اشد ضرورت ہے۔ اگلے پانچ سالوں کے لیے ایک ورک پلان اور ایکشن پلان ترتیب دیا جانا چاہیے، جس میں واضح ہدایات ہوں کہ پارٹی کس طرح علاقے میں ترقیاتی منصوبوں، سماجی مسائل اور نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے عملی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس میں عوامی اجتماعات، سیمینارز، تربیتی ورکشاپس اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جاری منصوبوں کا اعلان شامل ہونا چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کے لیے پانچ سالہ جامع تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) گلگت بلتستان کو ایک منظم، فعال، اور مؤثر سیاسی و سماجی قوت بنانے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ ان تجاویز کا مقصد جماعت کی تنظیمی، سیاسی، اور سماجی حیثیت کو مضبوط کرنا اور عوامی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔
رکن سازی مہم کو منظم اور وسیع بنانا
جے یو آئی کی موجودگی کو گراس روٹ سطح پر مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک منظم اور وسیع رکن سازی مہم شروع کی جائے۔ اس مہم میں ہر ضلع، تحصیل، اور گاؤں تک جماعت کو پہنچایا جائے اور خصوصی طور پر نوجوانوں، طلباء، اور خواتین کو شامل کیا جائے۔ اس سے جماعت کی تنظیمی بنیادیں مزید مضبوط ہوں گی اور نئی قیادت ابھرنے کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خواتین کی رکن سازی اور  انہیں تنظیمی امور شامل کرنا گلگت بلتستان جیسے قبائلی معاشرے میں مشکل ضرور ہوگا مگر یہ کام بہرحال آج نہیں تو کل کرنا ہوگا تو ابھی سی ہی اس کا آغاز کیا جائے ۔
عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرنا
عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے جماعت کو زیادہ فعال ہونا چاہیے۔ ہر علاقے میں عوامی مسائل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو مقامی مسائل سننے اور ان کے حل کے لیے فوری اقدامات تجویز کریں۔ اس طرح جے یو آئی گلگت بلتستان کو عوام کی نظر میں ایک خدمتگار جماعت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو اخباری بیانات تک محدود نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔
سماجی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کریں
جے یو آئی کو سماجی فلاح و بہبود کے میدان میں بھی متحرک ہونا چاہیے۔ اس میدان میں جماعت کا گلگت بلتستان میں وجود ہی نہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں فلاحی منصوبے شروع کیے جائیں، جیسے کہ مدارس اور سکولوں میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے تعاون، یتیم بچوں کی مالی مدد، اور دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کا قیام۔ یہ اقدامات عوامی بھلائی کے ساتھ ساتھ جماعت کی مثبت ساکھ بنانے میں بھی مددگار ہوں گے۔ ان کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر ہوم ورک اور اس پر عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ ماہرین کیساتھ مشاورت بھی کی جاسکتی ہے اور جماعت اسلامی کے احباب سے بھی طریقہ سیکھا جاسکتا ہے۔
نوجوانوں اور خواتین کو جماعت میں فعال بنانا
نوجوان جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، اس لیے ان کی سیاسی و نظریاتی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تربیتی ورکشاپس اور پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو قیادت کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جائے تاکہ وہ جماعت میں فعال کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے بھی خصوصی پروگرامز ترتیب دیے جائیں تاکہ وہ جماعت کی فلاحی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ خواتین کے پروگرامز اور ورکشاپس کی ترتیب میں علاقائی روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت اہم ہے۔
عملی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنا
تحریکی سیاست کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی احتجاج، مظاہرے، اور جلسے منظم انداز میں کیے جائیں، تاکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے جماعت کی پالیسیوں اور نطریہ و منشور کو عام عوام تک پہنچایا جائے اور انہیں جماعت کے ساتھ جوڑا جائے۔ اس سے جماعت کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوگا اور عوامی حمایت میں بھی بہتری آئے گی۔ عوامی رابطے کی اس مہم کو تانگیر سے شندور تک، استور سے خپلو تک مربوط طریقے سے پھیلانے کی ضرورت ہے ۔
مستقبل کے لیے واضح حکمت عملی تیار کرنا
آئندہ کچھ وقت میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہونگے، ان کی ابھی سے مکمل تیاری اور تمام امیدواروں کی کمپین کا جامع اور مربوط پلان تشکیل دے کر ایکشن پلان کے لئے قیادت اور کارکنان کو منتخب کرنا چاہیے تاکہ بہترین نتائج سامنے آئیں۔ انتخابات کے بعد جماعت کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ جماعت اپنے اہداف کے مطابق مزید آگے بڑھ سکے۔ جماعت کی پالیسیوں پر عملدرآمد اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔
یہ تجاویز  اور ان جیسے دیگر چیزیں جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کو نہ صرف تنظیمی طور پر مضبوط کریں گی بلکہ جماعت کو عوامی خدمت کے میدان میں بھی نمایاں مقام دلانے میں مدد دیں گی۔ اس طرح جے یو آئی گلگت بلتستان عملی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لیے مؤثر قدم اٹھائے گی۔
سندھ اور پنجاب کی طرح، گلگت بلتستان میں بھی تحریکی سیاست کی بحالی کے لیے بنیادی عناصر پر کام کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جے یو آئی کو عوام کے درمیان جانا ہوگا، ان کے مسائل کو سننا ہوگا، اور ان کے لیے حل تلاش کرنا ہوگا۔ جے یو آئی کو صرف اخبارات اور میڈیا تک محدود رہنے کے بجائے، عوامی سطح پر عملی جدوجہد میں شامل ہونا ہوگا تاکہ عوام کو یہ محسوس ہو کہ جے یو آئی صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقی عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہے۔
یہی وہ وقت ہے کہ مفتی ولی الرحمان اور بشیر احمد قریشی ایک شاندار انٹری دیں اور عوام کو یہ باور کرائیں کہ گلگت بلتستان میں جے یو آئی ایک زندہ  و جاوید جماعت ہے۔ مرکز کو بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ پیغام ملے کہ ان کے مسائل کو قومی سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں رکن سازی کو بھی بڑے پیمانے پر فروغ دینا ہوگا تاکہ جماعت میں نئے اور نوجوان خون کا اضافہ ہو اور یہ جماعت مزید طاقتور اور فعال ہو۔ یہ وقت ہے کہ جے یو آئی اپنی سیاسی تحریک کو ایک نئی بلند سطح پر لے جائے اور عوام کو اس کا حقیقی چہرہ دکھائے جو ان کی بھلائی اور فلاح کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔
آپ حضرات سے گزارش ہے۔ ابھی سے کام شروع کریں اور کچھ نیا اور اچھا کرکے دکھائیں، کل پھر ہم جیسے لوگ تنقید کریں گے تو منہ اٹھا کر کہوگے کہ ہماری مخالفت کی جاری ہے اور ہماری مخالفت دین کی مخالفت ہے۔ دین کمزوری اور سستی نہیں سکھاتا، اس لیے آج سے اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور گلگت بلتستان میں راشد سرومرو اور نصیر احرار کی یاد تازہ کرا دیجئے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button