کالمز
پاکستان میں مذہبی جنونیت اور سدباب
پاکستان میں مذہبی جنونیت ایک تشویشناک صورتِ حال اختیار کر چکی ہے، جس نے نہ صرف معاشرتی امن اور سماجی بہبود کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عدل و انصاف کے اصولوں کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس جنونیت کی جڑیں مذہبی قیادت کی کمزوریاں، معاشرتی ناانصافیاں، سماجی ناہمواریاں، قانونی کا عدم نفاذ، عدالتی نظام کی کوتاہی، فورسز کی نااہلی، لاء اینڈ آرڈر کی ناکامی اور مذہب و قانون کی غلط اور من پسند تشریح میں پائی جاتی ہیں۔
ایسے واقعات عام ہو چکے ہیں جہاں ذاتی دشمنیوں اور اختلافات اور مذہبی چپقلش کی بنیاد پر کسی بھی عام فرد یا معروف شخص پر توہینِ مذہب یا توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت و اہل بیت اور صحابہ کا الزام لگا کر اسے عوام کے سامنے قتل کر دیا جاتا ہے، اور اس قتل کو ایک فخر کا عمل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف اسلامی تعلیمات، فقہی احکام اور سیرت النبی صل اللہ کے خلاف ہے، بلکہ ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کے مترادف بھی ہے۔ یہ ملک مزید انتشار اور انارکی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں مذہبی جنونیت کے پھیلاؤ کے کئی عوامل و اسباب اور وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم مذہبی زعماء کی غلط قیادت اور عوام میں شعور کی کمی ہے۔ بہت سی مذہبی جماعتیں اور افراد اپنے ذاتی مفادات کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں، اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، عوام مذہب کو انتہا پسندی اور تشدد کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال
توہینِ مذہب کے قوانین کا مقصد اسلام اور اس کی مقدسات کا تحفظ کرنا ہے، لیکن پاکستان میں ان قوانین کا غلط استعمال معاشرتی ظلم و جبر کا ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے بے گناہ افراد ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کا شکار ہو چکے ہیں۔ قرآن و سنت میں کہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ افراد خود سے انصاف کریں یا قانون اپنے ہاتھ میں لیں۔ اسلامی قانون میں انصاف اور عدل کی بنیاد پر ہر فرد کے حقوق محفوظ ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: "اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔” (النساء: 58)
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار صرف عدالتوں اور قانونی نظام کا ہے، نہ کہ عوام کا اور مذہبی جتھوں کا۔
فقہ اسلامی اور مذہبی جنونیت
فقہ اسلامی میں عدل و انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ توہینِ مذہب کے معاملے میں بھی فقہ اسلامی انتہائی محتاط انداز اختیار کرتی ہے۔ فقہاء کے نزدیک سزا کا تعین کسی فرد یا جماعت کا کام نہیں بلکہ یہ ریاست اور اس کے عدالتی نظام کا فرض ہے۔ امام شافعی، امام ابو حنیفہ، اور دیگر معتبر فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ توہینِ رسالت یا دیگر مقدسات کے مسائل میں فیصلہ کا اختیار صرف قاضی اور اسلامی عدالت کو ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کے پاس واضح قوانین موجود ہیں۔ اور ریاستی سٹرکچر بھی فعال ہے، ایسے میں کسی فرد، گروہ یا تنظیم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا نافذ کرنے کا حق نہیں۔
حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ معافی، برداشت، اور انصاف کا مظاہرہ کیا۔ طائف کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے، جب طائف کے لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسائے اور آپ ﷺ کو شدید زخمی کیا، اس کے باوجود آپ ﷺ نے بددعا کرنے کے بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
مذہبی جنونیت اور اسلام کے اصولِ عدل
اسلامی قانون میں سزا کا تعین ایک منظم اور معیاری عدالتی نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے، نہ کہ عوامی تشدد اور جنونیت کے ذریعے۔ قرآن مجید میں واضح حکم ہے: "اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہو اور اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ وہ تمہاری اپنی ذات کے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔” (النساء: 135)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انصاف اور عدل ہر حال میں مقدم ہے اور اس کے لیے ذات یا کسی قسم کے تعلقات کو خاطر میں نہیں لایا جا سکتا۔ جنونیت اور ذاتی دشمنیوں اور فرق مذہب کی بنا پر کسی پر الزام لگانا اور اسے قتل کرنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان میں مذہبی جنونیت کی چند مثالیں
پاکستان میں مذہبی جنونیت کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ یہاں مذہبی جنونیت اور توہین مذہب کے نام پر ہونے والی زیادتیوں کے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں نہ صرف قانونی مسائل بلکہ معاشرتی رویے بھی شامل ہیں۔ یہاں چند اہم واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں، سلمان تاثیر کا قتل (2011)، آسیہ بی بی کیس(2009-2018)، مشال خان کا قتل (2017)، جوگندر ناتھ منڈل کیس (1949)، پروفیسر خالد حمید کا قتل (2019)، جوزف کالونی کا واقعہ (2013)، سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کا قتل(2021)، یہ انتہائی معروف کیسز ہیں ورنا تو اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں اور پھر توہین مذہب کے نام پر روزنامہ کی بنیاد پر مسلمان ایک دوسروں کے خلاف احتجاج، ایف آئی آرز اور مقدمات درج کرتے اور کراتے رہتے ہیں، اور اسی طرح پاکستان میں کئی واقعات میں ذاتی دشمنیاں، زمین کے جھگڑے، یا سماجی تنازعات کو توہینِ مذہب کے الزامات میں بدل دیا جاتا ہے، جس سے کئی بے گناہ افراد متاثر ہوتے ہیں۔
ہمارے گلگت بلتستان میں بھی سینکڑوں واقعات ہیں جو توہینِ مذہب کے نام پر رجسٹر ہوئے اور پھر احتجاجات اور دھرنوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے وجود میں آئے اور ایک دوسروں پر مقدمات اور ایف آئی آرز تو معمول کا حصہ ہے۔ ہر فریق اسے متاثر ہوا ہے۔
آج کل تو پاکستان میں عشروں درس دین دینے والے معتبر علماء بھی توہین مذہب کے نام پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کونسا مسلک ہے جس کے نامور اور جید علماء کو توہین مذہب کے نام پر رسوا نہ کیا گیا ہو؟۔ علماء اور دیندار طبقات کا توہینِ مذہب کے نام پر ایک دوسروں کو رسوا کرنے کا شغل سالوں سے جاری و ساری ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف کا قیام
اسلامی تاریخ میں انصاف کے اصولوں کی پاسداری کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت میں ایک غیر مسلم نے ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ حضرت عمرؓ نے بغیر کسی امتیاز کے اس مقدمے کا فیصلہ کیا اور غیر مسلم کو حق دیا۔ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام میں انصاف کا قیام کس قدر اہم ہے، اور یہ کسی بھی قسم کے ذاتی جذبات یا جنونیت کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔
مذہبی جنونیت کا سدباب
مذہبی جنونیت کا خاتمہ ایک منظم اور مربوط حکمتِ عملی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
1. مذہبی تعلیمات کی درست تشریح:
مذہبی زعماء اور علماء کو عوام میں دین کی صحیح تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اسلام امن، محبت، اور انصاف کا دین ہے اور جنونیت کی کوئی گنجائش نہیں۔
2. قانون کی بالادستی کا قیام:
ریاست کو ایسے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا جو توہینِ مذہب کے معاملات میں عوامی تشدد کو روک سکیں اور مجرموں کو قانونی طریقے سے سزائیں دی جا سکیں۔ یہاں مجرموں کو معاف کرنا بھی جنونیت کا وجہ بنتا ہے۔ اس باب میں قانون کی بالادستی اور حکمرانی بہرحال سب سے اہم ہے
۔
3. عوام میں شعور بیدار کرنا:
میڈیا اور تعلیمی اداروں کو عوام میں مذہبی جنونیت کے نقصانات اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کی وضاحت کرنی چاہیے۔ عوام کو بتایا جائے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں میڈیا مذہبی منافرت و جنونیت پھیلانے کا سب سے بڑا اور آسان ٹول ہے۔
4. تعلیم و آگاہی کی فراہمی:
مذہبی تعلیم کو معتدل، علمی، اور وسیع تناظر میں پیش کیا جائے تاکہ انتہا پسندی کی سوچ کی روک تھام ہو۔
5. برداشت اور رواداری کی ترویج:
معاشرے میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے درمیان باہمی احترام اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔ جب تک برداشت اور رواداری کا عملی مظاہرہ نہ کیا جائے، اس مذہبی جنونیت سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔
6. مذہبی علماء کی تربیت:
علماء اور خطباء کو مذہبی تعلیمات کی اصل روح سے روشناس کرایا جائے اور ان کی تربیت انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے کی جائے۔ منبر اور اسٹیج ہر ایک کے حوالہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے لئے حکومت پاکستان مکمل ترتیب کے بعد باقاعدہ تصدیق نامہ اور سرٹیفکیٹ جاری کرے، بغیر اس سرٹیفکیٹ کے کوئی مولوی، شیخ یا الواعط، مسجد، امام بارگاہ اور جماعت خانے کے منبر یا کسی بھی مذہبی و عوامی پروگرام میں تقریر نہ کرسکے ۔
7. مکالمے اور بین المذاہب بات چیت:
مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے مابین مکالمے کو فروغ دے کر باہمی افہام و تفہیم پیدا کی جائے۔ اس کام کو گاؤں اور ٹاون سطح تک وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ صرف بڑے شہروں کے اعلی شان ہوٹلوں میں مکالمے اور بین المذاہب بات چیت سے کام نہیں بنے گا۔
8. نوجوانوں کو مصروف رکھنا:
نوجوان نسل کو صحت مند تفریح، کھیلوں، اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے تاکہ وہ انتہا پسندی کی طرف راغب نہ ہوں۔ مذہبی جنونیت کا سب سے بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے سب سے زیادہ نوجوانوں کو مثبت کاموں میں انگیج رکھنے کی ضرورت ہے۔
9. معتدل مذہبی مواد کی فراہمی:
میڈیا، سوشل میڈیا، اور تعلیمی نصاب میں معتدل اور امن پسند مذہبی مواد کو شامل کیا جائے۔ اعتدال پر مبنی مواد اور کنٹینٹ کریٹ کرکے سوشل میڈیا میں وسیع پیمانے پھیلانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ سوشل میڈیا موثر ترین اور سستا فورم ہے۔ ہر فرد کو رسائی حاصل ہے۔
10. قانونی سختی:
مذہبی بنیاد پر تشدد یا اشتعال انگیزی کی سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ شدت پسندی کے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ سائبرکرائمز کو مکمل فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تو صورت حال یہاں تک پہنچی ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی قانونی شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں اور وردی میں جنونیت کا مظاہرہ کرکے ملزم کو قتل کر دیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔ جب تک قانونی سختی نہ ہوگی، انتہاپسند تو چھوڑیں، پولیس والے ہی قتل کا ارتکاب کرکے غازی بنتے پھریں گے۔
11. سماجی و اقتصادی اصلاحات:
غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کو حل کرکے لوگوں کو انتہا پسند گروہوں میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ بہت دفعہ غربت بھی مذہبی جنونیت کا سبب بنتی ہے۔
12. خواتین کا کردار:
خواتین کو تعلیم اور آگاہی دے کر انہیں مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔ خواتین اس باب میں فعال اور موثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
13. دعا و تربیت کے پروگرام:
مساجد، مدارس، اور دیگر مذہبی اور تعلیمی اداروں میں دعا اور تربیت کے ایسے پروگرام ترتیب دیے جائیں جو امن، محبت، اور بھائی چارے کا درس دیں۔ مساجد اس باب میں سب سے بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سرکاری سطح پر، مساجد کو مذہبی جنونیت کے خاتمے اور امن و امان اور سماجی ہم آہنگی اور معاشرتی روادی کا "کمیونٹی سینٹرز” کا درجہ دینا چاہیے اور اس کے لیے بہترین پالیسی وضع کرکے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مذہبی جنونیت ایک ایسے معاشرتی بگاڑ کا نام ہے جس کا کوئی تعلق اسلام کی اصل تعلیمات سے نہیں۔ پاکستان میں اس جنونیت کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے عدالتی اور معاشرتی نظام کے لیے خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے اصولِ عدل و انصاف کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کو مذہب اسلام کی حقیقی روح سے روشناس کرایا جائے تاکہ مذہب کو نفرت اور انتہا پسندی کے بجائے امن، محبت، اور بھائی چارے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ جنونیت کا مقابلہ علم، شعور، اور انصاف کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب علماء اور زعماء مذہب کی درست ترجمانی کریں اور ریاست قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے۔