کالمز
مُرکم: فطرت کی دیوی

تحریر۔ عزیز علی داد
ترجمہ۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت کی دیومالائی کونیات کی دیویوں میں مرکم دیوی شاید سب سے اہم اور مشہور دیوی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نسوانی دیویوں کے نام اور ان سے منسوب خاصیتیں اور رسومات گلگت کے لوگوں کی یاداشت سے تقریباً محو ہو گئی ہیں، تاہم مرکم دیوی ایک استثنا اس لئے ہے کیونکہ وہ لوگوں کی ثقافتی یاداشت میں آج تک زندہ ہے اور سماج میں اس سے متعلق تصورات اور رسومات کی باقیات بھی موجود ہیں۔
1955 میں گلگت اور نواحی علاقوں میں جرمن مہم جوؤں کے مشن کے دوران، مشہور جرمن ماہر آثار قدیمہ اور ماہر علم بشریات کارل جٹیمار کو وادی حراموش میں مرکم دیوی اور دیامر کی وادی گور میں ایک چھوٹے دیوتا طئیبن کی پرستش کے لئے بڑے بڑے پھتروں سے ایستادہ کئے گئے عمارتی ڈھانچے دیکھنے کو ملے۔ جٹیمار کا کہنا ہے کہ حراموش کے لوگوں کی یاداشت میں مرکم دیوی کا ایک دھندلا سا تصور موجود ہے، جبکہ کچھ افراد، خاص طور پر مارخور کے شکاری، مرکم دیوی کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شکار کی دیوی ہے، جبکہ خواتین کا ماننا ہے کہ وہ بچے کی پیدائش میں ان کی مددگار دیوی ہے۔ مجموعی طور پر وہ قدیم فطری دور کی ایک دیوی ہے۔
گلگت میں شکاریات کی روایات و رسومات بہت ہی پیچیدہ اور جامع معاملہ ہے۔ شکاریات کی رسوم کی تفصیلات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام رسومات انسان کو اپنے آپ کو انسانوں سے جڑی ہوئی ہر چیز اور آلائشوں سے پاک کرنے پر مرکوز ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسان کی مہک کو خود سے مٹانے کے بعد ہی شکاری مرکم دیوی کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔ مثلاً شکار کرنے سے قبل شکاری اپنے جسم کو جنیپر "چلی” کے پتوں کو جلا کر اس کی دھونی سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے تاکہ انسانی بدن کی بو اس سے رفع ہو جائے۔ پھر شکاری علی الصبح شکار پر نکلتا ہے تاکہ کوئی انسان اسے دیکھ نہ پائے ۔ کیونکہ روایت مشہور ہے کہ شکار پر جاتے ہوئے اگر راہ چلتے اگر اس کی کسی انسان سے مڈ بھیڑ ہو تو وہ شکار نہیں کر سکتا کیونکہ مرکم دیوی اس شکاری کی رکھوالی اور ہدایت نہیں کرتی جس کی آنکھوں میں انسان کی شبہیہ موجود ہو۔ اس لئے مقدس جاندار مثلاً مارخور کو دیکھنے کے لیے شکاری کو اپنی آنکھیں اور روح کو پاک کرنا پڑتا ہے۔
آنکھیں روح کا عکس ہوتی ہیں۔ اگر آنکھوں پر انسانی نظر غالب آجائے تو وہ روح مقدس دیوتاؤں کے ساتھ تفاعل اور بات چیت نہیں کر سکتی ہے۔ شکاری کا یہ کہنا ہے کہ شکار سے پہلے انہیں شکار کے ہتھیار کی بیٹھک اور سنسناہٹ کی آوازیں آتی ہیں۔ یہ چیزیں اس بات کی علامات ہوتی ہیں کہ مرکم دیوی ان کے شکاری سازو سامان سے باتیں کر رہی ہے اور وہ ان کے خوابوں میں آکر انہیں شکار کے مقام اور مارخور کے بارے میں بشارت دیتی ہے جنہیں وہ شکار کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے قصے عام ہیں کہ شکار کے دوران مرکم شکاریوں کے ساتھ ہوتی ہے اور نظر نہ آتے ہوئے بھی وہ ان سے ہم کلام ہوتی ہے۔
مرکم دیوی کی دلنشیں آواز اور سرمدی خوبصورتی ان لوگوں کو مسحور کر دیتی ہے جو کسی طور پر اسے دیکھ پاتے ہیں۔ اگر کسی شکاری کو مرکم نظر آ جائے تو اپنے شکار کے سفر کو بہت ہی مسرور کیفیت میں گزارتا ہے۔ اس پرسرور کیفیت میں شکاری کو ایسا لگتا ہے کہ یہ وہ خود نہیں ہیں بلکہ مرکم ہے جو ان سے شکار کروا رہی ہوتی ہے۔ گویا یہ مقدس ہستی کو خود حوالگی کی ایک مثال ہے۔
ساتھ ہی یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسانی شعور اور روح کا قدرت کے مقدس نظام میں مکمل انضمام ہو چکا ہے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے، فطرت کا حصہ بننے سے ہی قدرتی جانداروں کے اسرار انسانوں پہ ظاہر ہوتے ہیں اور چرند و پرند انسان سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
مرکم دیوی کے سحر کے زیر اثر شکاری اس زبان کو بھی سمجھنے لگتا ہے جس میں مارخور آپس میں بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شکاری مارخوروں کے جھنڈ کے درمیان ہونے والی گفتگو پر پوری توجہ مرکوز کرتا ہے۔ شکاری بنا سوچے سمجھے شکار نہیں کرتا بلکہ وہ ایسے مارخور پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو بوڑھا ہوچکا ہو اور بچے جننے کے قابل نہ ہو۔
مادہ مارخور اور اس کے بچے کے درمیان مشہور مکالمے پر مبنی ایک مقامی لوک گیت گلگت بلتستان کی ہر زبان کے ادب میں مشہور ہے۔ یہ لوک کہانی بنیادی طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسانوں میں جنگلی حیات کی بولی سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن یہ تب ممکن ہوجاتا ہے جب انسان خود کو غلاظت سے پاک صاف رکھ کر باہر فطرت کی پاکیزگی میں مکمل طور پر ضم ہو جائے۔
مُرکم دیوی عورتوں کو بچے جنم دینے کے عمل میں مدد کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچہ اتنا معصوم ہوتا ہے جتنا کہ بکری کا نوزائیدہ میمنا۔ یہ میمنا معصوم ہوتا ہے اور کبھی بھی فطرت کو آلودہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا جسم اور روح فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگ رہتے ہیں۔
جبکہ انسانی بچہ بڑا ہوتا ہے تو اپنی معصومیت کھو دیتا ہے اور وہ اپنے گروہ کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
چونکہ عورت میں ایک آلودہ جسم سے معصوم و پاکیزہ بچے کو جنم دینے کی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے مرکم اسے انسانوں کی بجائے ایک الوہی خصوصیت کے طور پر دیکھتی ہے۔ مرکم ہی وہ دیوی ہے جو عورت کے پیٹ میں بچے کا بیج بوتی ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد مرکم ہی اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ گلگت کے ثقافتی طور طریقوں کے مطابق ماں کو اپنے نوزائیدہ بچے کو اکیلا چھوڑنے کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے کیونکہ یچولو اور یمالو جیسے بدصورت خیالی مخلوق شیر خوار بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا عین دوپہر چڑیلیں بچوں کو کھا جاتی ہیں۔ اس لئے والدین بچے کا بلوغت تک خیال رکھتے ہیں تاکہ اسے پچھولو سے بچایا جاسکے جو نوجوان لڑکے کو یچھینی لڑکی سے ہم بستری کے لیے اغوا کرنا چاہتے ہیں۔
دیوملائی مخلوق یچھلو سے یہ امید ہوتی ہے کہ انسان اور اس دیومالائی مخلوق کے جسمانی اختلاط سے خوبصورت اولاد پیدا ہوگی ۔ کہا جاتا ہے کہ یچولو نامی دیو مالائی مخلوق انسانوں کے سامنے خود کو ظاہر کرتے ہوئے اس لئے شرماتا ہے کیونکہ وہ شکل و صورت سے بہت بدصورت ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ خوبصورت نوزائیدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تلاش میں ہوتا ہے۔
کبھی کبھار مرکم عورت کی زچگی کے دوران خواب یا دزدہ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور اس سے بچے کے مقدر کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔ گلگت بلتستان میں کچھ زبانی کہانیاں ہیں جن میں بچے کی ماں کو پہلے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ لڑکی یا لڑکے کو جنم دے گی۔ بعض اوقات مرکم دیوی بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ مثلاً وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ لڑکا انسان سے شادی کے بندھن میں بندھے گا یا نہیں۔ مرکم اس لڑکے کی ماں کو خبردار کرتی ہے کہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرے کہ وہ کسی انسان زادی سے شادی نہ کرے کیونکہ مرکم نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ایک حسین پری سے ہی شادی کرے گا۔
گلگت بلتستان میں شکار سے متعلق بہت ساری مقبول کہانیاں ہیں جو اس بچے کی تقدیر بیان کرتی ہیں جو بالغ ہو کر انتہائی خوبصورت ہو جاتا ہے اور وادی کی لڑکیوں کے لیے توجہ کا مرکز جاتا ہے۔ وہ نوجوان اپنی جاذبیت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی لڑکیوں کے دل جیتتا اور کچھ سے محبت کر بیٹھتا ہے۔ مگر جب اس محبت کا اختتام جسمانی تسکین تک پہنچاتا ہے یا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے تو مرکم دیوی طیش میں آ جاتی اور سزا دینے کے لیے اسے نیند یا غنودگی کے عالم میں چلاتے ہوئی کسی پہاڑی یا بلند جگہ لے جاکر اسے دریا یا نیچے وادی میں پھینک کر مار دیتی ہے۔
روایات کے مطابق جو لڑکا مستقبل کی بشارتیں اور مرکم کی برکات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اُسے ایک خاص بچہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اُسے اپنی جوانی تک اور جوانی کے دوران کچھ خاص پابندیوں، رسومات، معمولات کی پاسداری کرنی پڑتی ہے اور کاموں کو اپنانا پڑتا ہے جو انسانی معاشرے میں عام بچے نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ایسے شخص کو مافوق الفطرت خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی حدود کو عبور کر کے ہی کوئی مافوق الفطرت یا دیومالائی مخلوق بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیومالائی شخص ہی مافوق البیان خوبصورتی کے حامل بچوں کو جنم دے سکتا ہے۔ عام طور پر دیومالائی یا پریوں کے بچے حد درجہ خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے کی ایک جھلک دیکھ کر لوگ مسحور ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مرکم اس بچے پر نظر رکھتی ہے جب تک کہ وہ اپنی والدہ کا دودھ پینا ترک نہ کر دے۔ گلگت کے گھروں میں یہ معمول ہے کہ جب بچہ نیند میں دودھ پینے کی نقل کرتا ہے تو خاندان والے بچے کو اُسی وقت نہیں جگاتے ہیں جب تک وہ خواب میں دودھ پینے کے عمل کی نقل کرتا رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہے جب مرکم دیوی بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہوتی ہے۔
مرکم صرف لڑکوں کی ہی پرورش نہیں کرتی ہے بلکہ وہ خوبصورت لڑکیوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ تاہم، لڑکوں کے بالغ ہونے تک انتظار کرنے کے برعکس، لڑکیوں کے معاملے میں مرکم لڑکی کی بلوغت کا انتظار نہیں کرتی بلکہ وہ منتخب شدہ لڑکی کو بلوغت سے پہلے ہی اس کے ماں باپ سے اٹھا کر اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مرکم کی زندگی، ان کا علاقہ اور ان کا گھریلو ماحول دائمی جوانی اور تازگی کا مظہر ہوتا ہے ۔ وہاں کے مکین ابدی جوانی میں رہتے ہیں ،اس لیے پریوں کی سرزمین میں لڑکیاں سو سال کی عمر میں بھی اتنی ہی ترو تازہ اور جوان نظر آتی ہیں جتنے کہ پھول ہوتے ہیں۔
ہنزہ کے ہنی گاؤں کی مشہور افسانوی کہانی ” شاری بانو شاری ساشکن تے گئے” یعنی” شاری بانو پریوں کی سرزمین چلی گئی” ایک ایسی بچی کی داستان بیان کرتی ہے جو بکری کا دودھ لینے باغ میں گئی تھی، مگر دودھ دوہنے کے بعد واپس آتے ہوئے شاری بانو کو مرکم کے حکم پر پرستان لے جایا جاتا ہے۔
شاری بانو کے والدین نے اسے گاؤں کے ہر کونے میں تلاش کیا لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ آخرکار انہوں نے یہ سوچ کر اپنی گمشدہ بیٹی کی تلاش ترک کر دی کہ شاید اسے کسی یچھولو نے اغوا کرکے اپنی باری میں لے گیا ہوگا جہاں تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ شاری بانو کی گمشدگی کے دو سال بعد ایک مشہور شمن/ دائینل کسی دوسری وادی سے ہنزہ کے گاؤں ہنی آتا ہے تاکہ گاؤں کی مشہور شراب حاصل کر سکے۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس 280 موکل پریاں تھیں جن کی پہنچ جنت کی پریوں کی سرزمین پرستان کے ہر حصے تک تھی۔
ہنی گاؤں میں سب سے بہترین شراب کا ذخیرہ شاری بانو کے والد کے پاس تھا۔ اس نے دائنیل سے کہا کہ وہ اگر ان کی پیاری بیٹی کا پتہ لگائے لے اور واپس لا سکے تو انعام کے طور پر وہ شمن کو چھ عدد شراب کی مشکیزے دیگا ۔
شمن یہ پیشکش قبول کرلیتا ہے اور کچھ شمنی رسمیں ادا کرنے کے بعد وہ مرکم دیوی سے رابطہ قائم کر لیتا ہے اور پریوں کی سرزمین میں شاری بانو کی خوشحال زندگی کے بارے میں ایک گانا گانے لگتا ہے۔ وہ مرکم دیوی سے شاری بانو کے والدین کی حالت زار کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، خاص طور پر اس کی والدہ کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ جب بھی اپنی بیٹی کو یاد کرکے رونے لگتی ہے اس کی آنکھوں سے خون کے قطرے گرنے لگتے ہیں کیونکہ آنسو خشک ہوچکے ہیں”۔ یہ سن کر شاری بانو کی ماں کی حالت زار پر مرکم کو رحم آجاتا ہے اور وہ شاری بانو کو اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیتی ہے۔ وہ شمن کو حکم دیتی ہے کہ ایک خاص دن کو گاؤں کے لوگ اس کے استقبال کے لیے تیاری کریں۔
جس دن شاری بانو کی آمد ہونی ہوتی ہے، اسی دن گاؤں کے لوگ ایک خاص مقام پر جمع ہوتے ہیں اور مقررہ وقت پر شاری بانو پرستان سے پریوں کے حصار میں ایک دلکش موسیقی کے ساتھ اترتی ہے۔ یہ موسیقی پریوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے پیدا ہوتی ہے جو زمین میں سازندوں کی موسیقی کے ساتھ مل کر ایک ترنگ پیدا کرتی ہے۔ شاری بانو کے والدین دیکھتے ہیں کہ اس برفانی موسم میں بھی ان کی بیٹی کے ہاتھ میں تازہ پھولوں کا گلدستہ اور دودھ کا وہی برتن ہوتا ہے جس کو لے کر وہ گھر سے نکلی تھی اور دودھ اتنا گرم تھا جیسے ابھی ابھی بکری سے دودھ دوہیا گیا ہو۔
اپنی بیٹی کو گلے لگا کر بوسہ دینے کے بعد والدین اس سے پوچھتے ہیں "تم اتنی سردی میں یہ پھول اور گرم دودھ کہاں سے لے کر آئی ہو؟” شاری بانو جواب دیتی ہے، "جہاں سے میں آئی ہوں وہاں کچھ بھی خراب یا بوسیدہ نہیں ہوتا ہے۔” پھر یوں گویا ہوتی ہے، "پریوں کی سرزمین میں ابدی بہار کا موسم ہوتا ہے۔ جب میں گاؤں کے لیے روانہ ہوئی تھی تب یہ پھول میں نے اپنی کھڑکی کے قریب پھولوں کے درخت سے توڑے تھے”۔
اس کہانی کے کئی تاویلی پہلو ہیں، تاہم جو بات یہاں اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ کہانی پریوں کی سرزمین اور دیوتاؤں کی دنیا کی ابدیت اور تازگی کو انسان کی زندگی کی بگڑتی ہوئی حالت کے مقابلے میں ظاہر کرتی ہے۔
مرکم کی دسترس صرف چراگاہوں اور برفیلی چوٹیوں تک محدود نہیں، بلکہ پہاڑوں کے بیچ کی گہرائیوں تک بھی ہے اس لئے اسے زمین کے باطن میں چھپے ہوئے رازوں اور خزانوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ چونکہ اسے قیمتی پتھروں تک آسانی سے رسائی حاصل ہے، اس کا تخت جو برف کے قصر میں ہے یاقوت اور لعل سے سجا ہوتا ہے، جسے شینا اور بروششکی زبانوں میں مک کہتے ہیں۔
میرے فیلڈ ورک کے دوران کئی شمنوں/ دائینلوں نے مجھے بتایا کہ وہ نہ صرف انسان کے دل اور دماغ کے اندر مخفی رازوں کو جانتے ہیں، بلکہ زمین اور پہاڑوں کی عمیق گہرائیوں میں نہاں خزانوں کا علم بھی رکھتے ہیں۔ چونکہ مرکم اپنے شمنوں کی پاکیزگی پر اعتماد کرتی ہے اور انہیں ان پوشیدہ مقامات کا راز بتاتی ہے جہاں قیمتی پھتروں کا خزانہ ہوتا ہے۔
اس طرح نشانیوں اور علامتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرکم دیوی گلگت کی دیومالائی کونیات میں حقیقی اور خیالی ہستیوں کے ساتھ دیوتاؤں کے درجہ بندی میں بھی ایک اونچے مقام پر فائز ہے۔ مقامی زبان میں مرکم کے لیے مختلف نام استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے راچی پیانلی، دارنیجی، مشگون، لائلیگی، اور کبھی کبھار اسے جادوگرنی بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ سب نام یا تو مرکم کی اضافی صفات ہیں یا مختلف حالتیں ہیں جو ان سے پیدا ہوتی ہیں ۔
دارنیجی ایک عمومی اصطلاح ہے جو ان ہستیوں اور دیومالائی مخلوقات کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو انسانی زمین سے باہر کی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ "دار” کا جو لفظ دارنیجی میں ہے وہ "دور” کا حوالہ دیتا ہو، جس کا مطلب ہپناٹزم ہے ، کیونکہ مرکم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آہٹ کے زیر اثر آیا ہوا شخص ہپناٹائز ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنی شخصیت اور اعمال کو مرکم دیوی یا اس کے ذیلی نگہبان پریوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ جب کوئی شخص حالت تنویم میں ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ مرکم کے در یا ہپناٹزم کے زیراثر ہے۔ گلگت کے مختلف علاقوں میں بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جو ان واقعات کو بیان کرتی ہیں جہاں ایک شخص رات کو اپنے بستر سے اٹھتا ہے اور تنویم کی حالت میں پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیتا ہے تاکہ وہ چراگاہوں سے ہوتے ہوئے پریوں کے آسمانی مسکن تک پہنچ سکے۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ مرکم کی صفات بعد میں اس سے جدا ہو گئیں ہوں اور مقامی کونیات میں ثانوی دیویوں کے طور پر نمودار ہوئی ہوں۔ لیکن پھر بھی وہ مرکم دیوی کی سرپرستی کے تحت ہی کام کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مشگوں ایک ایسی دیوی ہے جو شکار کی نگرانی کرتی ہے اور کامیاب شکار کی صورت میں وہ شکاری کے زیر نگیں آجاتی ہے تاکہ اسے آئندہ شکار کرنے میں معاونت کرے۔
اسی طرح راچی پیائلی ایک ایسی دیوی ہے جو جنگلی حیات کا خیال رکھتی ہے۔ شینا اور بروششکی زبان میں "رچ” کا مطلب ہے حفاظت کرنا اور دیکھ بھال کرنا۔ لہذا راچی پیائلی شکار کرنے والوں اور چرواہوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اس کے علاوہ یہ پری شمن / دائنیل کو کسی بھی علاقے میں آنے والی قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع دیتی ہے۔
نوٹ از اشفاق۔ ” گلگت بلتستان میں بزدل افراد کے لئے شینا زبان میں کہا جاتا ہے کہ تمہاری راچی نہیں ہے۔ یعنی آپ میں قوت اور جرات کی کمی ہے اور اس شخص کو بہ غراچی کہا جاتا ہے یعنی کمزور اور بزدل شخص۔
اس اصطلاح سے صاف پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان کی مقامی کونیات میں مرکم دیوی/ راچی پیائلی نہ صرف قدیم فطرت کی دیوی ہے بلکہ وہ طاقت اور جرات کا استعارہ بھی ہے”۔