کالمز
گلگت بلتستان اور چترال میں خودکشیاں: اسباب، اثرات، اور روک تھام کے لیے تجاویز
گلگت بلتستان اور چترال قدرت کے حسین شاہکار ہیں، جہاں کے بلند و بالا پہاڑ، سرسبز وادیاں، بہتے دریا، اور دلکش جھیلیں دیکھنے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔ یہ علاقے نہ صرف اپنی فطری خوبصورتی بلکہ اپنی ثقافتی اور سماجی ورثے کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ یہاں کے لوگ محبت، مہمان نوازی، اور خلوص کے پیکر ہیں۔ لیکن اس جنت نظیر علاقے میں ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے، جو ان خوبصورت وادیوں کو دھندلا دیتی ہے۔ جب جب یہ تلخی اپنی کسی بھی شکل میں نمودار ہوتی ہے تو دل کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔ اس تلخی نے اب پورے سماج کو گھیر رکھا ہے۔ یعنی گلگت بلتستان اور چترال میں بڑھتی ہوئی خودکشیاں۔
کچھ لوگ جسمانی طور پر پاکستان سے دور ہوتے ہیں، اپنے آبائی علاقوں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر سکونت پزیر ہوتے ہیں اور اپنی فیملی کیساتھ ایک خوشگوار زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں ، لیکن ان کے دل ہمیشہ وطن کی محبت میں دھڑکتے ہیں۔ وہ کسبِ معاش کے لیے دنیا کے کسی اور کونے میں رہتے ہیں، مگر اپنے ملک اور علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل فکر مند رہتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق سماجی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہمدرد اور انسان دوست شخصیت ہیں، ہمارے گل جی بھائی، جن کا تعلق چترال سے ہے اور وہ ٹورانٹو، کینیڈا میں مقیم ہیں۔
اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرتے ہوئے بھی ان کا دل گلگت بلتستان اور چترال کی خوبصورت وادیوں میں بستے لوگوں کے مسائل پر مرکوز رہتا ہے۔ خاص طور پر خودکشی جیسے حساس اور المناک مسئلے کے بارے میں وہ گہری فکر رکھتے ہیں اور فکر مند بھی رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ہم جیسے قلم کاروں کو اس پر لکھنے اور آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ اس سماجی ناسور کو ختم کیا جا سکے۔ گلگت بلتستان اور چترال کے علاقے جتنے قدرتی طور پر دلکش ہیں، ان کے لوگ بھی ویسے ہی دلوں کی خوبصورتی اور خلوص کے پیکر ہیں، اور یہی چیز ان علاقوں کو، دنیا بھر میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
گلگت بلتستان اور چترال کے خوبصورت پہاڑوں اور وادیوں میں چھپے اس سماجی ناسور نے حساس دل رکھنے والوں کو اندر سے جلا کر راکھ کردیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں خودکشیوں کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ کچھ سال پہلے کی ایک سروے رپورٹ دیکھی، جس کے مطابق صرف ضلع غذر اور چترال کے اعدادوشمار کے مطابق چند سالوں میں 500 سے زائد خودکشیاں رپورٹ ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور نوجوانوں کی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں خواندگی کی شرح پاکستان کے دیگر حصوں سے زیادہ ہے، لیکن یہ تعلیم اور خوشحالی کے بظاہر روشن پہلو نوجوانوں کی زندگیوں کو تاریک کیوں بنا رہے ہیں؟۔اگر پورے گلگت بلتستان کی رپورٹس سامنے آجائیں تو مزید صورتحال گھمبیر نظر آئے گی۔
خودکشیوں کی وجوہات اور اسباب
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کار لوگ خودکشیاں کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تب سمجھ آئے گا جب ہم خودکشی کے اسباب و وجوہات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ کچھ عمومی وجوہات ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے خودکشیاں ہورہی ہوں۔
1. تعلیمی دباؤ اور مسابقت:
ہمارے ان علاقوں میں تعلیم کے میدان میں سخت مسابقت نوجوانوں کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر رہی ہے۔ طلبہ و طالبات کی معمولی ناکامی بھی سماجی دباؤ اور نفسیاتی الجھنوں کا سبب بن جاتی ہے۔ کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے مسابقتی کلچر کے دباؤ میں آکر، کسی شکل میں اپنی جان لی ہے۔
2. بے روزگاری اور مواقع کی کمی:
گلگت بلتستان اور چترال کے لوگ غربت اور کسمپرسی کے باوجود اپنے بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلاتے ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، گلگت بلتستان اور چترال میں انہیں ملازمت نہیں ملتی، کیونکہ یہاں ملازمت کے مواقع محدود ہیں۔ یہ صورتحال نوجوانوں میں مایوسی اور احساسِ کمتری کو بڑھا دیتی ہے۔ اور پھر نوجوان اپنی جان کے درپے بن جاتے ہیں۔
3. خواتین پر سماجی دباؤ:
گلگت بلتستان کے کچھ اضلاع اور چترال میں خواتین بہت ہی زیادہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ یہ پڑھی لکھی خواتین کو بھی اکثر روایتی سماجی نظام کے تحت فیصلے ماننے پڑتے ہیں۔ ناپسندیدہ شادیوں اور سماجی پابندیوں سے ان کی نفسیاتی حالت پر برا اثر پڑتا ہے۔ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پڑھی لکھی خواتین نے اجڈ اور اپنے سے کم پڑھے لکھے شخص کے ساتھ جیون بتانے کی بجائے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی ہیں۔ اب یہ روایات پورے گلگت بلتستان میں چل نکلی ہے۔ یہ خطرناک رجحان بری طرح پھیل رہا ہے ۔
4. غیرت کے نام پر قتل:
غیرت کے نام پر قتل گگلگت بلتستان اور چترال میں معمول کا حصہ ہے۔ ضلع دیامر میں تو اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ تاہم آج کل قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے غیرت کے نام پر قتل کو بھی، اکثر خودکشی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے، جس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ خواتین کی خودکشی میں آدھی سے زیادہ قتل کی واردات ہوتیں ہیں تاہم انہیں خودکشی کا نام دیا جاتا ہے ۔
5. نفسیاتی مسائل اور تنہائی:
نفسیاتی مسائل جیسے ڈپریشن اور تنہائی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں، اور ان کے علاج کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ نوجوانوں کی ڈپریشن کی داستانیں بھی انتہائی ہولناک ہیں اور بدقسمتی سے نفسیاتی معالجین کا وجود ہی نہیں۔ اور حکومتی اور سماجی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
6. دین اسلام سے دوری:
دین اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری بھی ایک سبب ہے۔ علماء کرام اور دیندار طبقے نے نوجوانوں بالخصوص نوجوان خواتین کو دین کا اصل مقصد سمجھانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ کوئی معقول پلان ہی ترتیب نہیں دیا ہے۔
یہاں مذہبی تنافرت اور بدمعاشیوں کو دین کا نام دیا جاتا ہے۔ اساسیات دین کی بجائے فروعات پر زور ہے، جس کی وجہ سے بالخصوص نوجوان طلبہ و طالبات دین کی روح سے ناواقف ہیں۔ اور اس کمزوری اور سستی پر کوئی دل دھڑک بھی نہیں رہا۔
7. اصلاح و تزکیہ کا عدم وجود:
اصل نفس و تزکیہ سماج کی بہتری کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے۔ اول تو گلگت بلتستان اور چترال میں اس کے ادارے ہی نہیں، اگر اکا دکا کہیں خانقاہی نظام موجود بھی ہے تو اس کو چند وظائف تک محدود رکھا گیا ہے۔ فرد کی اصلاح و تزکیہ کا کوئی عمومی اور شاندار وجود نہیں ہے۔ اس سے بھی خودکشیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ خودکشی جیسے ناسور سے بچنے کے لئے تزکیہ و اصلاح کے مراکز بہت زیادہ ضروری ہیں۔
اسلام میں خودکشی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔” (سورۃ النساء: 29)
نبی کریم ﷺ بکا فرمان ہے:
"جس نے کسی چیز کے ذریعے خودکشی کی، وہ قیامت کے دن اسی چیز کے ذریعے عذاب دیا جائے گا۔” (صحیح بخاری)
یاد رہے کہ انسان کی روح، اس کے پاس امانت الہی ہے جس میں خیانت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے اسلام میں خودکشی حرام اور گناہ عظیم ہے۔
حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں خود کشی کی مختلف صورتوں کی تفصیلات موجود ہیں:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا: جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔‘‘
لہذا اگر کوئی شخص خود کشی، جائز سمجھ کر کرتا ہے تب تو ہمیشہ وہ جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا، اور اگر کوئی شخص جائز سمجھے بغیر یا نادانی اور ڈپریشن میں کرتا ہے تو امید ہے کہ اللہ رب العزت اس کو اپنے فضل کرم سے جب چاہیں معاف کرکے جنت میں داخل کردیں۔
خودکشی کے سماجی اثرات
1. خاندان کی تباہی:
خودکشی کرنے والے فرد کا خاندان معاشرتی طعنوں اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ ہمیشہ خود کو مجرم قرار دیتا رہتا ہے۔
2. معاشرتی بداعتمادی:
یہ واقعات علاقے کے سماجی ڈھانچے کو کمزور کرتے ہیں اور عوام میں بداعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔
3. منفی رجحانات کا فروغ:
خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نوجوانوں میں زندگی سے مایوسی کو عام کرتے ہیں۔ اور بہت سے نوجوان خود بخود اس طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔
روک تھام کے لیے تجاویز
1. تعلیمی نظام میں اصلاحات:
تعلیمی دباؤ کو کم کرنے کے لیے نصاب میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور طلبہ کو ذہنی سکون فراہم کرنے کے لیے کونسلنگ کا بندوبست کیا جائے۔ نصاب کو خالص فنی بنانے کی بجائے دینیات کو بھی درست طریقے سے شامل کیا جائے۔ نصاب ایسا ہو کہ اسے مشین بننے کے بجائے انسان بنے۔
2. روزگار کے مواقع:
گلگت بلتستان اوت چترال کی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، تاکہ نوجوانوں کو معاشی مسائل سے نجات ملے۔ فقر، انسان کو کفر تک لے جاتا ہے۔ جب تک پڑھے لکھے نوجوان اور خواتین کو مناسب روزگار نہ ملے اور پھر میرٹ کے مطابق انہیں کسب معاش کی سہولتیں نہ دی جائیں تب تک یہ مسائل وقوع ہوتے رہیں گے۔ بڑے پیمانے پر اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے۔
3. خواتین کے حقوق کا تحفظ:
خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیا جائے۔ ناپسندیدہ شادیوں کے رجحان کو ختم کیا جائے۔ انہیں میراث میں برابر کا حصہ دیا جائے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اور خواتین کو اپنی ساخت و طاقت کے مطابق تمام ضروری شعبوں میں آگے بڑھنے میں معاونت کی جائے۔ اور انہیں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے روکا جائے۔
4. نفسیاتی سہولیات:
نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں ماہرینِ نفسیات کا انتظام کیا جائے۔ نفسیاتی معالجین اور اداروں کا وجود ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نفسیاتی مسائل کے تدارک کے لئے علمی ایکٹیوٹیز بھی بہت زیادہ ضروری ہیں۔ تعلیمی اداروں سمیت دیگر متعلقہ ادارے بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
5. علماء اور اساتذہ کا کردار:
کسی بھی معاشرے میں علماء و اساتذہ کا کردار بہت مرکزی ہوتا ہے۔ علماء خودکشی کی حرمت پر وعظ دیں اور سماجی مسائل کے حل کے لیے عوام کو رہنمائی فراہم کریں۔ جمعتہ االمبارک کے خطبوں اور دیگر اہم مواقع پر خودکشی جیسے قبیح عمل مدلل گفتگو کریں۔ مجھے حیرت ہے کہ علماء ان اہم سماجی موضوعات کو کیوں نہیں بیان کرتے؟
علماء کی طرح اساتذہ بھی طلبہ کی ذہنی صحت پر توجہ دیں اور ان کی مشکلات سمجھنے کی کوشش کریں۔ انہیں بہت رہنمائی دیں۔ میری کلاس میں کچھ ایسے طلبہ ہیں جو نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔ میں انہیں سبطسے زیادہ فوکس کرتا ہوں اور ان کی بات سننے کی کوشش کرتا ہوں اور انہیں فیسلیٹیٹ کرتا ہوں ۔
6. اہل قلم اور میڈیا کی ذمہ داری:
اہل قلم اور میڈیا مثبت رجحانات کو فروغ دیں اور خودکشی کی قباحتوں سے اپنے قلم اور زبان سے آگاہی دیں۔ اس طرح کے مسائل کو ریٹنگز کے لیے ببڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بجائے ان مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں۔ اور ابلاغ کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دیں ۔
7. سماجی و رفاہی ادارے:
سماجی و رفاہی ادارے آگاہی مہمات چلائیں اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ہاٹ لائنز اور سپورٹ سینٹرز کا قیام عمل میں لائیں۔ اور اس کے لیے ماہرین کی خدمات بھی لیں اور علماء و اساتذہ کو بھی اپنے کام میں شامل کریں۔ خودکشی جیسے ناسور کا مقابلہ سب نے مل کر کرنا ہوگا۔
8. حکومتی اقدامات:
حکومت کو چاہیے کہ خودکشی کے روک تھام کے لئے وسیع بنیادوں پر ترجیحی کام کا آغاز کرے، بالخصوص غیرت کے نام پر قتل کے قوانین کو سختی سے نافذ کرے اور تعلیمی و معاشی مسائل کے حل کے لیے خصوصی پیکجز کا اعلان کرے۔ اور شاندار معاشی اصلاحات اور روزگار کے مواقع فراہم کرے ۔
9. دین اسلام کی طرف راغب کرنا:
دینی مدارس و جامعات اور مساجد، منصوبہ بندی کے ذریعے لوگوں کو دین اسلام کی طرف راغب کریں اور انہیں فروعات میں الجھانے کی بجائے قرآن کریم اور رسول اللہ کی زندگی کے طور طریقے سکھا دیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دین اسلام اور اس کے روح کے قریب کریں ۔
10. تزکیہ و اصلاح کے اداروں کا قیام:
فرد کی اصلاح اوت تزکیہ کے بغیر یہ سارے کام مشکل ہیں، اگر فرد کی تزکیہ ہو تو خودکشی جیسے درجنوں ناسور خودبخود ختم ہوجائیں گے ۔ تزکیہ سے مراد قرآنی تزکیہ ہے۔
خلاصہ کلام:
گلگت بلتستان اور چترال میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات ہمارے سماج کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو روز بڑھتا جاتا ہے اور اس کا علاج کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ لوگ ویسے ہی اپنی جان نہیں لیتے، کچھ تو ہے جس کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے۔
اس سماجی ناسور کے حل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں زندگی کی قدر و قیمت کو اجاگر کیا جائے اور سماجی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اگر ہم آج اقدامات اٹھائیں تو یہ حسین وادیاں پھر سے امید اور خوشحالی کی علامت بن سکتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اس ناسور سے بچا لیں۔ اگر بروقت اس ناسور کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ ہمارے لہلہاتے کھیل و کھلیان سب جلا کر راکھ کر دے گا۔