گلگت بلتستان میں یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی.
تحریر: جسٹس (ریٹائرڈ) مظفر علی، سپریم اپیلٹ کورٹ، گلگت بلتستان۔
ترجمہ۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 1947 میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف مقامی طور پر مسلح جدوجہد کر کے اپنی سرزمین کو ڈوگرہ حکومت سے آزاد کروایا ۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد مقامی افراد نے پندرہ دنوں کے لیے اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کی۔
اس کے بعد مقامی قیادت نے نوزائیدہ اسلامی ریاست پاکستان کو اس خطہ میں اقتدار اعلٰی قائم کرنے دعوت دی، جسے حکومت پاکستان نے قبول کیا اور ایک نچلے درجے کے بیوروکریٹ کو گلگت بلتستان پر حکمرانی کے لیے تعینات کر دیا۔
حکومت پاکستان نے ابتدا سے ہی گلگت بلتستان کے لوگوں پر نوآبادیاتی نظام کے تحت حکمرانی کی ہے۔ اس دوران پاکستان کے نمائندے محمد عالم کو ایف سی آر کے تحت بطور پولیٹیکل ایجنٹ شاہی اختیارات دیے گئے۔
1970 کی دہائی کے وسط میں عوامی تحریک کے نتیجہ میں گلگت بلتستان سے ایف سی آر کا خاتمہ کر دیا گیا، لیکن اس سے قبل ہی حکومت پاکستان نے "اسٹیٹ سبجیکٹ رولز” کو معطل کیا تھا جو مہاراجہ کشمیر کے دور سے گلگت بلتستان میں نافذ تھے۔
ایف سی آر کے خاتمے کے باوجود گلگت بلتستان میں نوآبادیاتی نظام جوں کا توں برقرار رہا اور وقتاً فوقتاً حکومت پاکستان مختلف نوٹیفکیشنز اور حکم ناموں کے ذریعے گلگت بلتستان پر حکمرانی کرتی رہی ہے اور یہاں کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک مشہور فیصلہ دیا، جس میں کہا گیا: "ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ریاست پاکستان، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا دستخط کنندہ ہے، اس عالمی اعلامیہ کے تحت تمام انسانوں کو ان کی اصل یا حیثیت سے قطع نظر کچھ بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکلز 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8، 9، 10، 11، 12، 13، 15 اور 21 کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔” سپریم کورٹ آف پاکستان نے مزید کہا: کہ "شمالی علاقہ جات میں زیادہ تر پاکستانی قوانین نافذ العمل ہیں، بشمول شہریت کا قانون، لہذا شمالی علاقہ جات کے لوگ ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہیں۔ بنیادی حقوق کے دونوں زمروں کے درمیان فرق اہم نہیں ہے لہذا وہ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح کسی بھی بنیادی حق کو مانگنے کا حق رکھتے ہیں۔”
حکومت پاکستان نے 2009 میں گلگت بلتستان کے لیے ایک نیا صدراتی حکم نامہ جاری کیا، جس میں آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق شامل کیے گئے، لیکن کوئی آزاد عدالتی نظام متعارف نہیں کروایا گیا۔ حالانکہ آزاد عدلیہ ہی شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کو یقینی بنا سکتی ہے۔ آزاد عدلیہ کے بغیر کسی صدراتی حکم نامہ میں بنیادی حقوق کی فہرست شامل کرنا بے معنی ہے۔
سابقہ وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بااختیار بنائے گی، لیکن یہ دعویٰ محض دعویٰ ہی رہا۔
حکومت پاکستان نے 2018 میں ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر متعارف کروایا، جو پچھلے آرڈر 2009 سے بھی بدتر ہے۔
موجودہ صدراتی حکم نامہ نہ صرف انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی متصادم ہے۔
جس کی وجوہات درجہ ذیل ہیں۔
پاکستان شہریت ایکٹ 1951 (II of 1951)
کو کئی سال قبل گلگت بلتستان تک توسیع دی گئی ہے، لیکن پاکستانی پارلیمنٹ کے اراکین کے انتخاب کے لیے گلگت بلتستان کے لوگ ووٹ نہیں کر سکتے اس طرح ووٹ کا حق کسی معقول وجہ کے بغیر ان سے چھین لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی اپنی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ:
"یہ بات ناقابل فہم ہے کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو آئین کے تحت ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق سے کس بنیاد پر محروم رکھا جا سکتا ہے”؟۔
موجودہ صدراتی حکم نامہ میں بنیادی حقوق کی ایک فہرست ضرور شامل ہے، لیکن اس آرڈر کے تحت کوئی آزاد عدلیہ قائم نہیں کی گئی۔ ہائی کورٹ کے بجائے ایک چیف کورٹ متعارف کرایا گیا ہے جو وزیر اعظم پاکستان کے ماتحت ہے، کیونکہ گلگت بلتستان آرڑر 2018 کے آرٹیکل 84 کی ذیلی شق (6) کے تحت چیف جج اور دیگر ججوں کی تقرری وزیراعظم پاکستان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 84 کی ذیلی شق (9) میں ایک منفرد اور امتیازی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت وزیر اعظم کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی کسی بھی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو گلگت بلتستان چیف کورٹ کا چیف جج یا جج مقرر کریں، یہ شق گلگت بلتستان کے وکلاء برادری کے لیے مایوسی اور مشکلات کا باعث ہے کیونکہ پاکستان کے ہر صوبے کا اپنا ہائی کورٹ موجود ہے اور ان صوبوں کے لیے کسی دوسرے صوبے کے ججوں کو مقرر نہیں کیا جاتا ہے، لیکن گلگت بلتستان کے ساتھ امتیازی سلوک کی یہ ایک انوکھی مثال ہے۔
"آرڈر” 2018 کا باب VII کے تحت "قانون سازی کے اختیارات کی تقسیم” کا ذکر کیا گیا ہے، جس کے مطابق وزیر اعظم پاکستان گلگت بلتستان کے لیے قانون ساز بن جاتے ہیں، جبکہ آئین پاکستان کے مطابق وزیر اعظم صرف وفاق کے انتظامی سربراہ ہیں اور ان کے پاس کوئی قانون سازی کے اختیارات نہیں ہیں۔ وفاق پاکستان میں قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں جبکہ صوبوں میں یہ اختیارات صوبائی اسمبلیوں کے پاس ہیں جبکہ گلگت بلتستان آرڈر کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان کو گلگت بلتستان کے حوالے سے آئین سے ماورا اختیارات دیے گئے ہیں۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسئلہ کشمیر کی آڑ میں کی جا رہی ہیں لہذا اس پر بات کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ کشمیر تین حصوں پر مشتمل ہے۔
(الف) مقبوضہ کشمیر
(ب) آزاد کشمیر
(ج) گلگت بلتستان
مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ ابھی تک بھارتی قبضے سے آزادی کے منتظر ہیں، لیکن گلگت بلتستان کے مقابلے میں ان کا نظام حکومت بہتر ہے، حالانکہ ان پر جبر کے تحت حکومت کی جاتی ہے اور وہ بھارتی فوج کے مظالم کا سامنا کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے لوگ بھی بہتر نظام حکومت کے حامل ہیں۔ ان کا اپنا عبوری آئین ہے اور ایک آزاد عدالتی نظام ہے، آزاد جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ میں پاکستان کے کسی بھی صوبے کے جج کو مقرر نہیں کیا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں علاقوں میں باشندہ ریاست کے رولز نافذ ہیں۔ اس موضوع پر ایک تفصیلی تقابلی جائزہ میری اگلی تحریر میں پیش کیا جائے گا، جوکہ جلد شائع ہوگا۔
نوٹ۔ از ۔ اشفاق احمد۔ یہ مضمون جسٹس ریٹائرڈ مظفر علی صاحب نے انگریزی زبان میں لکھا تھا جس کا اردو ترجمہ ان کی اجازت سے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔