مولانا عبدالمنان کا تعزیتی ریفرنس اور اصل پیغام
مولانا عبدالمنان مرحوم گلگت بلتستان کے وہ بے مثال رہنما تھے جنہوں نے مسلسل 80 برس، اس خطے کی سیاسی، مذہبی، علمی، اور رفاہی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے سو سال کی طویل زندگی پائی اور کم و بیش 80 سال اس خطے کی سیاسی، سماجی، معاشی اور دینی و علمی اور جہادی سرگرمیوں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ شاندار عملی جدوجہد کیا اور 2024 کے اواخر میں انتقال کرگئے۔ بلاشبہ وہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک عظیم اور اوریجنل ہیرو تھے۔
گلگت کے مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی گلگت کے زیر اہتمام مولانا مرحوم پر ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں جماعت اسلامی گلگت بلتستان کی جملہ قیادت، جماعت اسلامی گلگت بلتستان و آزاد جموں کشمیر کے مرکزی امیر ڈاکٹر محمد مشتاق اور گلگت بلتستان کے کئی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے رہنماؤں اور نامور اہل علم و قلم احباب موجود تھے، جنہوں نے مولانا کی زندگی پر گفتگو کیا۔ راقم کو بھی مولانا مرحوم کی حیات جاوداں پر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا ۔
میں نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر انتہائی مختصر بات کرکے، ان کی 80 سالہ عملی زندگی کے سب سے اہم پہلو، اعتدال توازن اور وحدت امت کی کاوشوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ میری گفتگو کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
"میں نے طالب علمی میں ہی ایک تحقیقی پروجیکٹ شروع ہے جو” مشاہیر علماء گلگت بلتستان” کے نام سے معنون ہے۔ غالباً 2007 کی بات ہے۔ قاضی عبدالرزاق مرحوم کی سوانح عمری پر معلومات جمع کرتے ہوئے گلگت میں ان کے فرزند ارجمند قاضی نثار احمد مدظلہ کے پاس پہنچا۔ حضرت سے ایک طویل انٹرویو کیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ والد ماجد کے ایک اولین شاگرد اور ان کی تحریکی زندگی کے اولین ساتھی مولانا عبدالمنان صاحب ہیں، جو اسلام آباد میں فروکش ہیں، آپ کراچی جاتے ہوئے ان سے ضرور ملیں اور ان سے انٹرویو بھی کیجیے۔ قاضی صاحب نے ٹیلی فوننک، اسلام آباد میں مقیم مفتی سیف الدین استوری کی ذمہ داری لگائی کہ میری ملاقات مولانا عبدالمنان صاحب سے کروائیں، یوں اسلام آباد میں مفتی سیف الدین کی معیت میں مولانا عبدالمنان صاحب سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔ اس نشست میں مولانا کے صاحبزادے برادرم جاراللہ(اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان گلگت) بھی موجود تھے۔ وہ انٹرویو تحریر کی شکل میں سہہ ماہی خیر کثیر لاہور سے پبلش بھی ہوا۔
مولانا مرحوم کی عملی زندگی کا تفصیلی مطالعہ ان کی کتاب” ڈوئیاں سے زوجیلا تک” میں کیا۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو تاریخ کا ایک سنہری باب ہے، لیکن جو چیز انہیں سب میں منفرد اور ممتاز بناتی ہے وہ ان کا اعتدال و توازن پر مبنی کردار ہے۔ یہ اعتدال نہ صرف ان کی شخصیت کا جوہر تھا بلکہ ان کی زندگی کے ہر شعبے میں جھلکتا نظر آتا تھا۔
مولانا عبدالمنان نے مختلف الفکر و الخیال نامور لوگوں سے کسب فیض کیا اور تحریکی، فکری، علمی و روحانی استفادہ کیا۔ان میں تین نامور اشخاص شامل ایسے تھے جو اپنی ذات میں مکمل یکتا اور نامور تھے۔
پہلی شخصیت دارالعلوم دیوبند کے فاضل، مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ انورشاہ کاشمیری کے تلمیذ رشید قاضی عبدالرزاق، جو گلگت بلتستان میں مسلک دیوبند کے سرخیل تھے اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ہیرو اور انگریز اور ڈوگرہ راج کے خلاف اولین فتویٰ دینے والے مجاہد عالم دین تھے۔
دوسرے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمۃ، جو مستقل فکر و نظر اور اسلامی نظریاتی انقلاب کے بانی تھے۔اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست کے اولین مفکرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
تیسرے نامور شخص مولانا غلام النصیر چلاسی المعروف "بابا چلاسی” ہیں، جو اپنے افکار و نظریات، شاعری، علمی بصیرت، اور روحانی اصلاح و تزکیہ نفس کے حوالے سے مشہور و منفرد ہیں۔
مولانا عبدالمنان مرحوم بیک وقت ان تینوں عظیم ہستیوں کے شاگرد اور خوشہ چیں تھے۔ یہ حضرات سیاسی و مذہبی افکار کے حوالے سے بالکل مختلف اور جداگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ان کی تحقیقات و افکار اور مسلک و منہج کا بغور جائزہ لیا جائے تو تینوں حضرات میں ” بُعدالمشرقین” کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
تاہم مولانا عبدالمنان مرحوم کا یہ تعلق صرف علمی و روحانیاوت تحریکی استفادے تک محدود نہ رہا بلکہ انہوں نے اپنی طویل زندگی میں ان تینوں عظیم الشان شخصیات سے محبت، مودت، اور ان کے افکار کی پاسداری کا عملی ثبوت دیا اور امین بنے۔ حتیٰ کہ ان بزرگوں کی اولاد اور پسماندگان کے بھی سرپرست بنے۔ اور ان تینوں مختلف الفکر شخصیات کی وجہ سے مولانا مرحوم کسی کے مخالف یا حمایتی نہیں بنے بلکہ 80 سال کی طویل عملی زندگی میں وحدتِ امت کے لئے کام کرتے رہے۔ اور سب کے لیے یکساں قبولیت کا درجہ رکھتے ۔
اعتدال کی عملی مثال
مولانا عبدالمنان نے کبھی کسی ایک مکتب فکر یا نظریے کو دیگر پر فوقیت نہیں دی۔ انہوں نے ان تمام افکار کو اپنی زندگی میں اس طرح سمو لیا کہ وہ اعتدال و توازن کا ایک عملی نمونہ بن گئے۔ ان کی عملی زندگی اور کتاب کے مطالعے سے یہ باتیں عیاں ہوتیں ہیں۔ ان کا یہ کردار قرآن پاک کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے، جہاں امت کو "امت وسط” یعنی اعتدال اور توازن پر مبنی امت بننے کی تلقین کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا (البقرۃ: 143)
"اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے۔”
نبی اکرم ﷺ کی زندگی بھی اسی اعتدال کی عکاس ہے، جہاں دین اور دنیا، روحانیت اور مادی زندگی، محبت اور اصول، سب میں توازن برقرار رکھا گیا۔ مولانا عبدالمنان نے اپنی زندگی میں انہی اصولوں کو اپنایا اور ثابت کیا کہ حقیقی مومن وہی ہے جو نہ شدت پسندی کا شکار ہو اور نہ بے راہ روی میں مبتلا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"خَيْرُ الْأُمُورِ أَوْسَطُهَا” (شعب الإيمان، 4867)
"بہترین کام وہ ہیں جو درمیانی ہوں۔”
حدیث میں آتا ہے۔
"إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ” (بخاری: 39)
"بے شک دین آسان ہے۔”
مولانا عملی طور پر دین اسلام کو اعتدال و میانہ روی کیساتھ آسان بناتے رہے۔
امت کے لئے اصل پیغام
مولانا عبدالمنان کی شخصیت ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ اگر ہم اپنے معمولی معمولی اختلافات کو بھلا کر اعتدال کا راستہ اپنائیں تو نہ صرف ہمارے انفرادی کردار میں نکھار آ سکتا ہے بلکہ امت مسلمہ بھی ان چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے جن کا سامنا آج اسے ہے۔
مولانا عبدالمنان کا اعتدال ہی انہیں رجلِ قرآن اور رجلِ مومن بناتا ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسی مشعلِ راہ ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ محبت، رواداری، اور توازن کے اصول اپنائے بغیر ہم نہ دین کی صحیح خدمت کر سکتے ہیں اور نہ دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حقیقی حل پیش کرتا ہے۔ مولانا مرحوم کا یہی کردار ہمارے لئے اصل پیغام ہے جو وحدت امت کا درس دیتا ہے۔ یہی اپنانے کی ضرورت ہے ورنا نشستند اور گفتند سے کام نہیں چلے گا۔”