فلسفۂ قوم پرستی کیا ہے؟
قوم پرستی ایک انتہائی اہم ڈاکٹرائن ہے جس کا مقصد قومی ریاست کی تشکیل کرنا ہے۔ ایک قوم ایک ملک کا نظریہ دراصل قوم پرستی کی اساس ہے۔
قوم پرستی ایک سیاسی، سماجی اور ثقافتی نظریہ ہے جو کسی خاص قوم کے لوگوں کے درمیان اتحاد، شناخت اور خودمختاری کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ یہ نظریہ اس تصور پر مبنی ہے کہ قوم ، ریاست کی بنیاد ہونی چاہیے اور ہر قوم کو اپنے مفادات، زبان، ثقافت اور خودمختاری کو محفوظ رکھنے کا حق ہے۔
قوم پرستی (Nationalism) کی بنیاد قوم پہ قائم ہے اور لفظ قوم ( Nation) لاطینی زبان کے لفظ ”ناسی“ سے اخذ کیا گیاہے، جس کا مطلب ”پیدا ہونا“ ہے۔ پیدا ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی خاص کمیونٹی، مخصوص اجتماع یا گروہ میں پیدا ہونا ہے۔
ایک ”قوم“ کی مختلف تعریفیں ہیں جو مختلف قسم کی قوم پرستی کا باعث بنتی ہیں۔ نسلی قوم پرستی، مشترکہ نسل، ورثہ اور ثقافت کے لحاظ سے قوم کی تعریف کرتی ہے جبکہ شہری قوم پرستی مشترکہ شہریت، اقدار اور اداروں کے لحاظ سے قوم کی تعریف کرتی ہے اور اسے آئینی حب الوطنی سے منسلک کیا جاتا ہے۔
قوم پرستی کو مختلف ادوار میں مختلف مفکرین نے اپنی تشریحات اور نظریات کے ذریعے بیان کیا ہے۔
قوم پرستی کے متعلق عام طور پر دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے. ایک مکتبۂ فکر کا ماننا ہے کہ قوم پرستی تنازعات کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ دوسرے مکتبۂ فکر کا ماننا ہے کہ یہ قومی وحدت اور یکجہتی کے لیے ایک قوت کا کام کرتی ہے اور جب یہ فرد کو شناخت اور اس سے تعلق کا احساس فراہم کرے تو قوم پرستی ایک مفید قوت ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہر محکوم ملک کے لیے قومی آزادی کی لگن سب چیزوں پر مقدم ہونی چاہیے۔ اس سے فرد کو مشترکہ بھلائی کے حصول میں ساتھی شہریوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
مثال کے طور پر اینڈرسن نے قوم کو "خیالی برادری” (Imagined Community) قرار دیا۔ اس کے مطابق، قوم کا تصور انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو مشترکہ زبان، میڈیا اور تاریخ کے ذریعے پروان چڑھتا ہے۔ یہ تھیوری قوم پرستی کو جدیدیت کے ساتھ جوڑتی ہے اور اس کی سماجی اور تاریخی بنیادوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
ارنسٹ رینان اپنی کتاب” قوم کیا ہے” میں قوم کو ایک "روحانی اصول” قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہےکہ قوم محض زبان، نسل یا جغرافیائی حد بندی سے نہیں بنتی بلکہ مشترکہ ماضی اور اجتماعی یادداشت کی بنیاد پر لوگوں کے اتحاد سے وجود میں آتی ہے۔ اس کے مطابق قوم وہ ہے جو اجتماعی طور پر ماضی کو یاد کرے اور مستقبل میں ایک ساتھ رہنے کی خواہش رکھے۔
اسٹالن نے قوم کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے،
” کسی قوم کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان ہو، مخصوص علاقہ ہو اور مشترکہ معاشی سرگرمی یا مشترکہ معاشی مفادات ہوں“۔
ایلیس ہورسمین قوم پرستی کو جدید دور کا نظریہ سمجھتا ہے جو یورپ میں فرانسیسی انقلاب کے بعد ابھرا۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ قوم پرستی نے لوگوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دیا ہے لیکن یہ بھی کہا کہ یہ نظریہ تنازعات اور جنگوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ان مباحث کے تناظر میں قوم پرستی کے فلسفہ کو جاننے کے لئے اِن تین بنیادی خیالات کو سمجھنا ضروری ہے:
اول۔ قوم کا ہونا
دوم۔ قومی شعور و آگہی
سوم۔ قومی خودمختاری۔
قوم پرستی کے فلسفے پر یقین رکھنے والے نہ صرف انسانی معاشرے میں قوم کے وجود کو فطری عمل کا حصہ تصور کرتے ہیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود میں قوم کے کردار کو بنیادی عنصر قرار دیتے ہیں۔
نیشنل ازم کا نظریہ منتشر اور ٹکڑوں میں تقسیم کمزور قوموں کو یکجا کرنے کے لئے سیمنٹ کا کردار ادا کرتا ہے اور یہ طویل و مشکل جدوجہد سے محبت و عصبیت کے جذبات اور احساسات کے ذریعے باقاعدہ قومی یکجہتی اور قومی شعور و آگاہی فراہم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ قوم کے پاس اس کی اپنی سرزمین ہو جہاں پر اسے متفقہ آئین کے مطابق مکمل سیاسی، معاشی اور سماجی اختیارات حاصل ہوں۔
قوم پرستی کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ہر قوم کو اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مستقبل کا تعین کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ لہذا ایک قوم کے افراد کو مشترکہ اہداف اور مفادات کے حصول کے لیے متحد ہونا چاہیے اور قومی ثقافت، زبان اور روایات کو نہ صرف محفوظ رکھنے بلکہ انہیں پروان چڑھانے کی تلقین کرتا ہے۔
قوم پرستی ایک پرکشش نظریہ ہے اور ایک ایسی تحریک ہے جو ایک خاص قوم (جیسے لوگوں کا ایک گروہ جو صدیوں سے ایک علاقے میں مستقل طور پر آباد ہو) کے مشترکہ مفادات کو فروغ دیتی ہے۔ خاص طور پر اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے وطن اور قوم کے لیے خودمختاری حاصل کرے اور قومی شناخت و قومی آزادی برقرار رکھے۔ قوم پرستی کا واضح موقف ہے کہ ہر قوم بیرونی مداخلت سے آزاد ہو کر اپنے وطن پر خود حکومت کرے۔ ایک قوم ایک جمہوریہ کے لئے یہ فطری اور مثالی بنیاد ہے اور ایک قوم ہی سیاسی طاقت کا حق ہے۔ اس کا مقصد ثقافت، نسل، جغرافیائی محل وقوع، زبان، سیاست (یا حکومت) ، مذہب، روایات اور مشترکہ تاریخ پر اعتقاد کی مشترکہ سماجی خصوصیات پر مبنی ایک واحد قومی شناخت کی تشکیل اور اسے برقرار رکھنا اور قومی اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔
قوم پرستی کسی قوم کی روایتی ثقافتوں کے تحفظ دینے اور مزید فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے اور ثقافتی احیاء قوم پرست تحریکوں سے وابستہ ایک اہم عنصر ہے۔ یہ عنصر قومی کامیابیوں پر فخر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یہ تصور حب الوطنی کے ساتھ قریب سے جڑا ہوتا ہے۔ قوم پرستی اکثر دوسرے نظریات جیسا کہ استعماری فکر اور نو آبادیاتی پالیسی کے خلاف نظریاتی جدوجہد کرتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پوری انسانی تاریخ میں لوگوں کو اپنے خاندانی گروہوں، روایات، علاقائی سالمیت اور اپنے آبائی وطن سے فطری لگاؤ رہا ہے۔ چنانچہ قوم پرستی کو علاقائی طور پر منظم سیاسی اجتماعیت کے ساتھ قائم شناخت کے طور پر تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کسی مخصوص برادری میں بطور رکن خود کو بیان کرنے کی نفسیاتی ضرورت قوم پرست جذبات کی جڑ ہے۔
نوع انسانی کی ریکارڈ شدہ تاریخ دس ہزار سال پرانی ہے جس میں قومی شناخت مرکزی کردار کی حامل رہی ہے۔ قدیم لوگوں اور ان کی ثقافتوں کے عروج و زوال کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ قومیت کا نصب العین بہت گہرا اور قوی ہے۔ یہ کوئی فرسودہ چیز نہیں جس کی مستقبل کے لیے کچھ اہمیت نہ ہو۔ لہذا قومیت کا جو دائمی اثر انسانی طبیعت پر ہے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔
انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی شہری ریاستوں سے لے کر قدیم سمیریوں (Sumerians) تک قوم پرستی کا رجحان we versus they کی بنیاد پر قائم تھا۔
یونانی شہری ریاستوں اور رومی سلطنت میں قوم پرستی کے ابتدائی عناصر موجود تھے۔ تاہم یہ قوم پرستی جغرافیائی اور ثقافتی بنیادوں پر مبنی تھی۔
جدید دور میں ایک قوم ایک ملک کا فلسفہ درحقیقت معاہدہ ویسٹ فیلیا 1648 کے بعد پروان چڑھا، جب تیس سال کی خونی لڑائی کے بعد یورپی ممالک نے امن معاہدے کے تحت قوموں کی خودمختاری کے حق کو تسلیم کیا۔ اس طرح جدید قوم پرستی کی ترقی میں امریکی انقلاب 1776 نے آزادی، قوم پرستی اور جمہوریت کو شہ دی۔ اس طرح انقلاب فرانس 1789 نے بھی قوم پرستی کے جدید تصور کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
قومی "حق خودارادیت” فرانسیسی انقلاب سے جنم لینے والا ایک مثالیت پسند اعتقاد ہے جس کے مطابق ہر قوم اپنی سیاسی منزل مقصود کا خود تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ تصور امن کی راہ میں اچھا اقدام ہو گا۔
برطانیہ کی غلامی سے امریکی آزادی کا اعلامیہ ایک کلاسیکی مثال ہے جس کے تحت 1776 میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسانوں کو یکساں طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ انہیں اپنے خالق کی طرف سے کچھ غیر منقسم حقوق دیے گئے ہیں جن میں زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کا حق شامل ہے لیکن 18 ویں صدی کے آخر تک قوم پرستی عالمی سطح پر ایک وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ تصور نہیں بن سکی۔ لیکن انقلاب فرانس کے بعد پورے یورپ میں قوم پرست تحریکوں کا زبردست احیاء ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے نے تیسری دنیا جو نوآبادیاتی دنیا کہلاتی تھی میں قومی حق خودارادیت کے حصول کی طرف استعمار مخالف تحریکوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا۔ نوآبادیاتی دور میں ایشیا اور افریقہ میں قوم پرستی نے آزادی کی تحریکوں کو فروغ دیا اور اس دور کے سیاسی رہنماؤں نے نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف قوم پرستی کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
قوم پرستی کی اصل اساس یہ ہے کہ وطن سے الفت ایک فطری رجحان ہے۔ سیاسی مفکروں نے نیشنلزم کو ایک متحرک اور ارتقائی رجحان کے طور پر بیان کیا ہے اور قوموں اور قوم پرستی کی نشوونما میں علامتوں اور روایات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ جدیدیت کا نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ قوم پرستی ایک حالیہ معاشرتی واقعہ ہے جسے جدید معاشرے کے معاشرتی و معاشی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔
مشہور مفکر یووال نوح حراری اپنی کتاب
"اکیسویں صدی کے اکیس سبق” میں قوم پرستی کے بارے میں لکھتا ہے کہ قوم پرستی بتاتی ہے کہ آپ کی قوم انفرادیت رکھتی ہے اور آپ کی قوم کے ساتھ آپ کی خصوصی ذمہ داریاں ہیں ۔ قوم پرستی اگر تنگ نظری کی طرف نہیں جاتی ہے تو یہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ فائدہ مند خیال ہے۔ کیونکہ قوم پرستی بنیادی طور پر اجنبیوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بناتی ہے اور اس طرح کسی علاقے کے اندر صدیوں سے مستقل طور پر آباد لوگوں کی یہ برادری ایک قوم کی تشکیل کرتی ہے جو واقعتاً ایک دوسرے کو نہیں جانتی لیکن وہ ایک دوسرے کو بھائی سمجھ کر خود کو ایک قوم تصور کرتی ہے۔ وہ لوگ اپنے آپ کو قومی خاندان میں بھائی اور دوست سمجھتے ہیں۔ قوم پرستی ان کے مشترکہ اہداف کے لیے تعاون کرنا ممکن بناتی ہے اور جب آپ دنیا کو دیکھتے ہیں تو آپ عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مضبوط اور خوشحال ممالک قوم پرستی کے بہت مضبوط احساس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور جاپان جیسے ممالک کو دیکھیں تو ان کے پاس قومیت کا بہت مضبوط احساس ہے۔ اس کے برعکس سومالیہ، افغانستان ، کانگو جیسے ممالک جہاں قوم پرستی کا احساس مضبوط نہیں ہے وہاں تشدد اور غربت زیادہ ہے۔
یوال نوح حراری کے بقول قوم پرستی ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ ایک طرف اجنبیوں کے درمیان اتحاد پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف قوموں کے درمیان تنازع کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے مطابق قوم پرستی انسانوں کو اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے متحد کرتی ہے لیکن اگر تنگ نظری کا شکار ہو تو عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جب ڈی کالونائزیشن کا عمل شروع ہوا تو قومی آزادی کی تحریکوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کو چیلنج کرنے اور ان کی نوآبادیات میں قائم استعماری نظام کو ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس طرح استعمار کے خاتمے کو پوری دنیا میں نئی خودمختار قومی ریاستوں کے ظہور کی علامت بنایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 1 ذیلی شق2 ممبر ممالک سے لوگوں کے حق خود ارادیت کے حق کا احترام کرنے کا عہد لیتا ہے اور یہ غیر مشروط حق ہے۔
دنیا کی بڑی استعماری طاقتیں غیر ملکی رعایا میں قوم پرستانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی یا ان کا صفایا کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے نیشنلزم کے خلاف پروپیگنڈے پر بھاری رقوم خرچ کی جا رہی ہیں اور نیشنلزم کے حامی محب وطن افراد کو اکثر تنگ نظر ، وحشی ، غیر مہذب، شیطان اور بیرونی ممالک کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
غلامی جسم پر تصرف جمانے سے پہلے ذہن پر قبضہ کرتی ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی رعایا کے بعض لوگ اس گھناونے پروپیگنڈے سے مسحور ہوتے ہیں اور یوں استعمار کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور وطن فروشی کو قپنے لیے عار نہیں سمجھتے، وطن سے محبت کرنے والے افراد کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے کا ٹھیکہ لیتے ہیں اور اس طرح یہ وظیفہ خور اپنی روح کا سودا کر کے حقیر اغراض کے لیے اعلیٰ ترین قومی فرائض سے غفلت برتنے لگتے ہیں۔
اس "عظیم” خدمت کے باعث استعماری طاقت ان کی بڑی تعریف اور توصیف کرتی ہے اور ان پر مہذب، لبرل اور روشن دماغ جیسی اصطلاحات کی بارش کرتی ہے۔
قوم پرستی درحقیقت ایک قوم کی ترقی اور مشترکہ بقاء کی ضامن ہوتی ہے۔ قوم پرستی کا مطلب تنگ نظری نہیں، نہ ہی فسطائیت ہے ۔ عام طور پر لوگ اس بات میں فرق نہیں کر سکتے ہیں اور غلطی سے قوم پرستی اور فسطائیت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں جو کہ کم علمی یا منفی پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قوم پرستی نہ صرف ایک قوم کی اجتماعی بقاء کی ضامن ہوتی ہے بلکہ ریاست کے اتحاد کے لئے نیشنلزم ایک طاقت ہے۔ جرمنی کے چانسلر بسمارک نے قومی حب الوطنی کو بنیاد بنا کر دو سو چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم جرمنی کو منظم کر کے ایک مضبوط ملک بنا دیا۔
انسانی معاشرے میں مختلف زبان، ثقافت اور مذہب رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو مختلف گروہوں اور کمیونٹی میں تقسیم ہوتے ہیں اور یہ گروہ فطری عمل و ارتقاء کے نتیجہ میں سامنے آتے ہیں اس لئے ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
زبان، ثقافت، مذہب مشترکہ تاریخ یا مشترکہ علاقہ رکھنے والے گروہ آپس میں ایک خاندان کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کے آپس میں وہ تمام جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں جو ایک انسان اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے رکھتا ہے۔ اس قسم کے جذبات یا احساسات کا اظہار وہ خاص طور پر اس وقت کرتے ہیں جب کوئی بیرونی حملہ آور ان پر حملہ کرکے ان کے مشترکہ مفادات کو نقصان پہنچائے۔ اس صورت میں وہ یکجہتی کا اظہار کرکے اپنے سیاسی، معاشی اور قومی حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔ لہذا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی تشکیل میں قوم کی آپسی محبت اور عصبیت کے جذبات و احساسات کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس لیے تاریخی ترقی کے لحاظ سے قومی شناخت کو اپنانا قومی مشترکہ بقاء کی علامت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قدیم دور سے ہی قدرتی طور پر اِنسانیت قوموں میں منقسم ہے۔ چنانچہ دنیا کی اقوام اپنی مخصوص خصوصیات سے پہچانی جاتی ہیں اس لئے ایک قومی حکومت ہی قانونی ہوتی ہے۔
بین الاقومی سطح پر قوم پرستی کے عروج کی مثال یہ ہے کہ 1945 میں اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد سے اقوام متحدہ کی ممبرشپ تین گنا بڑھ گئی ہے اور کچھ ریاستیں اب بھی داخلے کے منتظر ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک ایک سو سے زائد نئی قومی ریاستیں قوم پرستی کی فتح کے ذریعے آزادی حاصل کر چکی ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف قوم پرست تحریکیں وجود میں آنا ایک فطری عمل ہے۔ حالیہ تاریخ میں ہم امریکہ سے روس تک قوم پرستی کی تشہیر اور عروج کو دیکھتے ہیں۔
عالمی سطح پر قومی ریاستوں کے حصول کے لئے مختلف سماجی گروپوں نے جدوجہد کی جن کی بنیاد قوم پرست نظریات پر تھی اور قوم پرست تحریکوں نے اس وقت عروج پایا جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت ساری قومی ریاستیں سنٹرل اور مشرقی یورپ میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں اور مڈل ایسٹ میں قوم پرستی کی بنیاد پر قومی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا.
اس نظریے کا ماننا ہے کہ ہر قوم کو اپنی خودمختاری، حقوق، اور شناخت برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ قوم پرستی کا فلسفہ نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی، ثقافتی، اور تاریخی عوامل کا مجموعہ ہے، جو مختلف ادوار اور حالات میں مختلف نظریاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔
قوم پرست تحریکوں کو 1914 کے بین الاقوامی قانون نے تسلیم کیا اور قومی حق خودارادیت کو باقاعدہ انٹرنیشنل لا میں تسلیم کیا گیا اور اس کا حصہ بن گیا-
حق خودارادیت سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب اول کا آرٹیکل 1 و ذیلی شق 2 ان الفاظ میں خود ارادیت کے حق کا مقصد بیان کرتا ہے، ’’ مساوی حقوق اور لوگوں کے حق خودارادیت کے اصول پر، اور عالمی امن کو مستحکم کرنے ،دوسرے مناسب اقدامات اٹھانے کے لئے ، احترام کی بنیاد پر اقوام کے مابین دوستانہ تعلقات استوار کئے جائیں‘‘۔ اس بنیاد پر ہر کسی کو حق خود ارادیت حاصل ہے۔ اس اصول کے تحت لوگ اپنے سیاسی مستقبل کا تعین اپنی مرضی سے کرسکتے ہیں۔ آزادی سے اپنی معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی پر توجہ دے سکتے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے نمیبیا، مغربی سہارا، مشرقی تیمور سے متعلق اسی اصول کو اپنایا.
تاریخی اِعتبار سے دیکھا جاۓ تو 1848 کا سال قوموں کے لئے بہار کا موسم مانا جاتا ہے جب یورپ میں قوم پرست دعوؤں اور عزائم کا ابھار آیا تھا۔ چنانچہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ قومی ںْطریاتی سیاست کا آغاز انقلاب فرانس کے بعد شروع ہوا اور قوم پرستی کے اصول ترقی پانے لگے اور آج بھی دنیا میں مقبول ترین نظریہ قوم پرستی کا ہے جس کے اثرات امریکہ سے مڈل ایسٹ تک اور ایشیاء سے روس تک نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔