خریدوفروخت (ٹریڈنگ)……گلگت بلتستان کے تناظر میں
خریدوفروخت کا مفہوم پڑھنے میں، دیکھنے میں اور بظاہر سمجھنے میں بہت آسان لگتا ہے، لیکن در حقیقت یہ ایک پیچیدہ مفہوم ہے، اور اس کا انحصار بہت سے اہم چیزوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً اشیاء کی دستیابی، ضرورت، ترسیل، چیزوں کی مارکیٹنگ، قوت خرید وغیرہ وغیرہ ۔
بنیادی طور پر گلگت بلتستان کو ایک زرعی علاقہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ گلگت بلتستان ایک پہاڑی علاقہ ہے، اور گلگت بلتستان کے پہاڑ سفید برف، گلیشیر، قدرتی جھیلوں اور ندی نالوں کا ایک حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے علاقوں کو سیاحت کے لیے موزوں سمجھاجاتا ہے، اورسیاحت اور اس سےجڑے کاروبار کو ہی ایسے علاقوں کے معاشی ڈھانچے کی بنیادی جز سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس گلگت بلتستان کی معیشت کا دارومدار اب بھی کسی حد تک بلواسطہ اور بلا واسطہ زراعت اور گلہ بانی پر ہی رہاہے، اور اسی شعبے کو ہی معیشت کے طور پر ایک لمبے عرصے سے اپنایا گیا ہے، جس کا سلسلہ کسی حد تک اب تک جاری ہے۔لیکن زراعت اور گلہ بانی کے جدید اصولوں سے ناواقفیت، مارکیٹینگ اور پیداوار کے لیے لوکل منڈی کی عدم دستیابی کی وجہ سے زراعت اور گلہ بانی کا شعبہ گلگت بلتستان کی معیشت کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ کبھی نہیں بن سکا۔ان بنیادی ضرورتوں کے بغیر یہ پیشہ ایک گھر کی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر سکا۔ چونکہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے زرعی زمینوں کی کمی اور سال کے چھ مہینے سخت سردی کی لپیٹ میں رہنے اور تقریباً 60 فیصد حصہ برف میں جھکڑے رہنے کی وجہ سے کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا شعبہ بنیادی معاشی شعبے کے طور پر پنپ نہیں سکا۔ اگر اس شعبے کو مذید آگے لے کر جانا ہے تو زمانہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں زراعت اور گلہ بانی کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اس پیشے کو جدید طریقہ کار کے تحت آگے بڑھا ئیں، تاکہ کم سے کم اپنے مقامی ضرورتوں کو پورا کرسکے اور ساتھ ساتھ معقول منافع بھی کمایا جا سکے۔
مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے روزمرہ کی چیزیں جو ہم استعمال کر رہیں ہیں، انہیں ہم مقامی طور پر پیدا کر سکتے ہیں، جبکہ بدقسمتی سے ہم اپنی روزمرہ کی بہت سےضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہی چیزیں پاکستان کے دوسرے حصوں سے منگواتے ہیں، جس پر ٹرانسپورٹیشن اور ٹیکس کی مد میں چارجز لگنےکے بعد ہم انہی چیزوں کو بہت مہنگے داموں خریدتے ہیں، اور ہمارے جیبوں سے خرچ ہونے والے پیسے دوسرے علاقے منتقل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے مقامی سرمایہ اکھٹا نہیں ہو پاتا، یہی وجہ ہے کہ مقامی سرمایہ کار یا مقامی سرمایہ کاری نا ہونے کے برابر ہے، بلکہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔
زراعت اور گلہ بانی کے روایتی طریقوں کا جایزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عام طور پر محدود زمینوں کے باوجود ہم اپنے زمینوں پر ہر چیز اگانے اور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً زمین کے کچھ حصے میں گندم، دوسرے حصے میں آلو، پیاز، سبزیاں اور بقیہ حصے میں دالیں وغیرہ ، طریقہ کاشت کے اس روایتی طریقہ کار کی وجہ سے ہم اپنی ذاتی ضرورت کو بھی پورا نہیں کرسکتے، کیونکہ ایسا کرنے کی وجہ سے ہر چیز جو ہم پیدا کرتے ہیں، ہماری اپنی ضرورت کو بھی پورا نہیں کر سکتا، جس کی سے ہم انہیں مارکیٹ میں بیجنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمیں اپنے روایتی طریقہ کاشت اور گلہ بانی کو تبدیل کرکے جدید طریقہ کاشت اور گلہ بانی کے اصولوں کو اپنانا پڑے گا، مثلاً ایک فرد کو ایک وقت میں صرف ایک مخصوص چیز ہی اگانی اور پیدا کرنی ہو گی مثلاً صرف سبزیاں یا صرف بکریاں، اور معاشرے کے باقی افراد بھی اپنے اپنے زمینوں پر ایک ہی قسم کے مختلف ضرورت کی چیزیں اگانی اور پیدا کرنی پڑے گی مثلاً گندم، دالیں، ہر طرح کے پھل فروٹس وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ چونکہ ایک ہی چیز کی پیداوار سے وہ چیز ہماری ضرورت سے زیادہ ہو گی، جسے ہم بازار میں بیج سکتے ہیں، اور معاشرے کا ہر فرد ایسا ہی کرے گا، اپنی دوسرے ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی چیزوں کی خریدوفروخت ہوگی، جس سے مقامی مارکیٹ وجود میں آ ئے گی۔ یہ مقامی مارکیٹ علاقائی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرے گا، پیسے کی گردش میں اضافہ ہو گا، جسے لوگوں کی قوت خرید بڑھے گی اور حوصلے اور تجربے کے ساتھ ساتھ پیداواری صلاحیت بھی وقت کے ساتھ بڑھے گی۔ اس طرح سے ہم بہت جلد علاقائی یا مقامی مارکیٹ سے نکل کر ملکی سطح پر اپنے چیزوں کی برانڈنگ کر سکے گے۔
زرعی چیزوں کے ساتھ ساتھ گلہ بانی، فش فارمنگ، اور پولٹری فارمنگ کے ذریعےگلگت بلتستان بہت سے مذید ضرورت کی اشیاء پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مثلاً جانور جس میں بھیڑ بکریاں، گائے بیل، مرغیاں ، انڈے اور مچھلیاں وغیرہ وغیرہ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سرپرستی اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے مقامی اشیاء کی مقامی سطح پر ہی برانڈنگ اور مارکیٹنگ کی جائے اور مقامی منڈیوں کے ذریعے مقامی کاشکاروں، چیزوں اور مقامی سرمایہ داروں کی حوصلہ افزا ئی کی جائے ، اور پیشہ ور اور اس پیشے میں تجربہ رکھنے والے افراد کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں کی ٹریننگ کے ذریعے جدید تربیت دی جائےاور زراعت کے جدید اصولوں سے روشناس کرایا جا ئے تو گلگت بلتستان اپنی مقامی ضروریات پوری کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔