کالمز

وزیر تعلیم، قوم پر احسان کریں!

ہم سب جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی تباہی پر ہر سال بحث ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوتا ہے، لیکن چند دن کے شور شرابے کے بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ مگر کیا کسی نے سنجیدگی سے سوچا ہے کہ ہماری تعلیمی زبوں حالی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ کیوں سرکاری اسکول زوال پذیر ہیں، اور کیوں حکمرانوں اور سرکاری افسران کے بچے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے؟

ایک پرانی تجویز یاد آرہی ہے۔بخدا یہ انقلابی تجویز تھی، اگر تب اس پر عمل ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔
حافظ حفیظ الرحمن کے دور میں راقم نے کالم لکھ کر یہ تجویز دی تھی کہ "اگر گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں کو معیاری اور بہتر بنانا ہے تو گلگت بلتستان اسمبلی سے ایک قانون پاس کیا جائے، جس کے تحت تمام سرکاری ملازمین، بشمول وزراء، ججز، اور ارکانِ اسمبلی کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا لازم ہو۔”

یہ ایک قابلِ عمل اور مؤثر تجویز تھی۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن صاحب نے ایک اخباری بیان دیا، اور کسی بڑے تعلیمی پروگرام میں یہ اعلان بھی کیا کہ سرکاری ملازمین کے بچے سرکاری اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کریں گے اور ہم یہ پالیسی بنا رہے ہیں مگر وہ صرف ایک بیان ہی رہا۔ چونکہ وہ اپنے قائد کی طرح زیادہ توجہ تعمیراتی منصوبوں پر دے رہے تھے، تعلیم کو ان کی ترجیحات میں جگہ نہیں ملی، اور یوں یہ تجویز پس پشت چلی گئی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم شامل ہی نہیں تھی تو بہتری کہاں سے آتی۔ ایک اور بات، یہاں ایک میرمنشی گزرے ہیں جنہوں نے سکول ایجوکیشن پر پورے جی بی کو چونا لگا دیا تھا۔ ان کی ایجوکیشن پالیسی میں طالب علم اور استاد تھے ہی نہیں بلکہ سکولوں میں رنگ روغن کرانا، کھیل کود کرانا، اور مختلف فیسٹیول کے نام پر بچے بچیوں کے مخلوط پروگرامز منعقد کرنا، ایجوکیشن کہلاتا تھا اور پھر مخصوص افراد اور کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کو نوازنا شامل تھا۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ سکول ایجوکیشن میں ریفارمز یا بہتری کے نام پر ہورہا تھا۔ اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

آج گلگت بلتستان کے پانچویں اور آٹھویں جماعت کے ناقص نتائج پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ پھر سے اساتذہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بات ہورہی ہے۔ گزشتہ سال نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کے نتائج بھی مایوس کن تھے۔ ہر بار یہی شور مچتا ہے، میڈیا میں ہنگامہ بپا ہوتا ہے، لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا اور نہ بظاہر اب اس کی امید نظر آرہی ہے۔

بہرحال اب بھی وقت ہے۔ کوئی قیامت نہیں آئی ہے۔ ایجوکیشن سسٹم درست ہوسکتا ہے۔ ہم اپنی پرانی تجویز دوبارہ دہرا رہے ہیں، اس امید کیساتھ کہ شاید اس تجویز پر عمل کیا جائے ۔ وزیر تعلیم گلگت بلتستان کو مخاطب کرتے ہوئے وہی تجویز دوبارہ پیش کرونگا۔

جناب وزیر تعلیم صاحب!

"تمام سرکاری ملازمین، بشمول وزراء، ججز، اور ارکانِ اسمبلی کے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں میں تعلیم لازمی قرار دی جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے مناسب بجٹ مختص کیا جائے۔”

سوال یہ اٹھ سکتا ہے کہ یہ اقدام کیوں ضروری ہے؟

تو یاد رہے کہ یہ کوئی جذباتی نعرہ یا تجویز نہیں بلکہ ایک حقیقت پسندانہ حل ہے۔ جب حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کے اپنے بچے انہی اسکولوں میں پڑھیں گے، تو وہ خود بخود اس نظام کو بہتر بنانے پر مجبور ہوں گے۔ اس کا اثر یوں ہوگا کہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ ہوگا، کیونکہ حکمران اب اس نظام کو نظرانداز نہیں کر سکیں گے۔ اساتذہ کی کارکردگی بہتر ہوگی، کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے شاگردوں میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ حکومتی شخصیات اور ان کے بچے بھی شامل ہیں۔سرکاری اسکولوں کی سہولیات میں بہتری آئے گی، کیونکہ ان پر اب وہی توجہ دی جائے گی جو نجی اداروں کو دی جاتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا، کیونکہ جب حکمران خود اپنے بچوں کو ان اداروں میں پڑھائیں گے تو عام آدمی بھی اس پر بھروسہ کرے گا۔

وزیر تعلیم صاحب،
میرا سوال ہے کہ کیا آپ گلگت بلتستان کی تاریخ میں اپنا نام رقم کروانا پسند کریں گے؟

محترم وزیر تعلیم شہزاد آغا صاحب! اساتذہ کو دھمکیاں دے کر جان چھڑانے کی بجائے کوئی انقلابی قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟

محترم وزیر تعلیم! اگر آپ نے اسمبلی سے یہ قانون منظور کروا لیا تو یہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک مثالی فیصلہ ہوگا۔ یہ صرف ایک اصلاحی قدم نہیں بلکہ تعلیمی انقلاب کی بنیاد ہوگا۔ آپ کا نام ان رہنماؤں میں لکھا جائے گا جنہوں نے محض بیانات دینے کے بجائے عملی اقدام اٹھایا۔

میرے تمام بھائیو اور ارباب اختیار اور تعلیم کے نام پر سیاست و سیادت کا نعرہ لگانے والو! یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں، حقیقی تبدیلی لانے کا ہے! آئیں ہم یہ موقع ضائع نہ کریں، اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی اپنی سطح پر کردار ادا کریں اور قوم پر یہ احسان کر جائیں!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button