کالمز

پرنس کریم، ایک عہد کا خاتمہ اور دو اہم خدشات

آغاخانی اسماعیلیوں کے انچاسواں امام، پرنس کریم آغا خان کی رحلت پر دنیا بھر میں ان کے پیروکار غمزدہ ہیں۔ خصوصاً گلگت بلتستان میں، جہاں ان کے ماننے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے، فضا سوگوار ہے۔ اس موقع پر حکومتِ پاکستان نے 8 فروی کو ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کردیا جب کہ حکومت گلگت بلتستان نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا، اور 6 فروری کو گلگت بلتستان میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا، جو اسماعیلی کمیونٹی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

گلگت بلتستان میں ان کی وفات حسرت آیات پر سب سے حوصلہ افزا پہلو یہ رہا کہ تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ افراد اور مذہبی و سیاسی قیادت نے بلا امتیاز اظہارِ تعزیت و تسلیت کیا۔ مذہبی، سماجی، اور علمی حلقوں نے پرنس کریم آغا خان کی خدمات کا اعتراف کیا اور اسماعیلی کمیونٹی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ گلگت بلتستان میں یہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کا ایک مثبت منظرنامہ تھا، جو اس خطے میں مختلف مسالک کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کی علامت بن گیا۔

تاہم، ان کی وفات کے بعد دو اہم خدشات میرے ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ میں ان دونوں خدشات کا اظہار اس لئے کررہا ہوں تاکہ مستقبل میں بہتری کے لئے راہیں ہموار ہوں۔

پہلا خدشہ دنیا بھر میں بالعموم اور گلگت بلتستان میں بالخصوص مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کا مستقبل کے حوالے سے ہے۔ پرنس کریم آغا خان اپنی تمام تر مذہبی، سماجی اور عالمی حیثیت کے باوجود ہمیشہ امن، برداشت اور بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی رہے۔ انہوں نے خاص طور پر گلگت بلتستان میں اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ دوسرے مکاتبِ فکر کے ساتھ احترام اور رواداری کے ساتھ رہیں، اور انہوں نے عملی طور پر اس بات کو یقینی بھی بنایا کہ ان کی برادری کسی بھی قسم کی مذہبی کشیدگی میں ملوث نہ ہو۔ میرے سامنے کئی ایسے واقعات ہیں جن میں پرنس کریم آغا خان نے اپنے پیرو کاروں کو بدامنی سے روک کے امن کی طرف راغب کیا۔ ہنزہ جیسے خالص آغاخانی اسماعیلیوں کے ضلع میں کئی معاملات کشیدگی کی طرف گئے تو بالآخر پرنس کریم آغا خان نے اہل تشیع کے ساتھ رواداری کا حکم دیا اور پھر اسماعیلی کمیونٹی نے رواداری کا عملی مظاہرہ کیا ۔

ان کے زیر قیادت، اسماعیلی کمیونٹی نے خود کو ایک پرامن، ترقی یافتہ اور مہذب برادری کے طور پر منوایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا؟ کیا ان کے جانشین پرنس رحیم بھی اسی حکمت، تدبر اور سماجی ہم آہنگی کی پالیسی کو برقرار رکھ سکیں گے، یا وقت کے ساتھ ساتھ یہ توازن بگڑ سکتا ہے؟ ایسے درجنوں سولات ہیں جو گزشتہ تین دنوں سے میرا پیچھا کررہے ہیں۔
پرنس کریم نے اپنے چاہنے اور ماننے والوں کو کتاب اور قلم پکڑایا تھا اور انہوں نے کتاب اور قلم تھامے، وہ مشکل راستہ طے کیا جو تقریباً ناممکن تھا، خدانخواستہ اگر اسماعیلی نوجوان نے کتاب اور قلم کے بجائے تیر اور کمان پکڑ لیا تو یہ اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہوگا۔

یہ خدشہ اس لیے بھی اہم ہے کہ خطے میں پہلے سے ہی مسلکی اختلافات کی ایک پیچیدہ تاریخ موجود ہے، اور پرنس کریم آغا خان کی دانشمندانہ قیادت اس توازن کو برقرار رکھنے میں معاون رہی۔ اگر ان کے بعد کسی سطح پر یہ رویہ بدلتا ہے تو اس کے اثرات نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ دیگر خطوں میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں جو بہرحال حضرت انسان کے لئے ٹھیک نہیں۔

دوسرا خدشہ پرنس کریم آغا خان کے فلاحی منصوبوں، سخاوت اور تعلیم و صحت کے شعبے کا تسلسل کے حوالے سے ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پرنس کریم آغا خان صرف اسماعیلیوں کا ایک روحانی پیشوا ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک عالمی سطح کے مدبر، فلاحی رہنما اور کامیاب منتظم بھی تھے۔ انہوں نے دنیا بھر میں، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، اور سماجی ترقی کے لیے بے شمار منصوبے شروع کیے۔ اور ان کے تدبر و حکمت کی وجہ سے گلگت بلتستان و پاکستان سمیت درجنوں ممالک میں کروڈوں لوگ مستفید ہوئے ہیں۔

اسی طرح پاکستان، ہندوستان، افغانستان، مشرقی افریقہ، اور وسطی ایشیا میں آغا خان یونیورسٹیاں، اسپتال، اسکول، اور دیگر فلاحی ادارے لاکھوں افراد کو علم اور صحت کی روشنی فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے یہ اقدامات نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ دیگر لوگوں کے لیے بھی رحمت اور ترقی کا ذریعہ بنے۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کے بعد یہ فلاحی کام اسی جذبے، مہارت اور سخاوت کے ساتھ جاری رہیں گے؟
کیا ان کے جانشین اور پچاسواں پرنس رحیم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی احساسِ ذمہ داری اور ویژن کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھائیں گے؟ یا پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ کمزور پڑ جائے گا؟

یہ خدشہ اس لیے بھی اہم ہے کہ دنیا کی بڑی فلاحی تحریکیں اور ادارے اکثر اپنی بانی قیادت کے بعد اپنی اصل روح کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف اسماعیلی کمیونٹی بلکہ لاکھوں دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے، جو ان اداروں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بہرحال امید اور احتیاط دونوں ضروری ہیں ۔ پرنس کریم آغا خان کی رحلت یقیناً ایک عظیم نقصان ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دانشمند قیادت اور مضبوط روایات رکھنے والی برادریاں اپنا تسلسل برقرار رکھتی ہیں۔ ان کے بعد آنے والی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ وہ مذہبی رواداری، فلاحی کاموں، اور انتظامی مہارت کی وہی راہ اپنائے جو پرنس کریم آغا خان نے طے کی تھی۔

ہم امید رکھتے ہیں کہ ان کے بعد بھی یہ تسلسل برقرار رہے گا، لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ ان خدشات کی بنیاد کتنی مضبوط تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پرنس کریم آغا خان کی رحلت ایک شاندار عہد کے خاتمے کی مانند ہے، ایک ایسا عہد جو فلاح، علم، رواداری اور خدمتِ انسانیت سے عبارت تھا۔
آج اسماعیلی کمیونٹی ایک گہرے صدمے سے دوچار ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ عظیم شخصیات کی جدائی ان کے مشن کو ختم نہیں کرتی بلکہ اسے مزید جِلا بخشتی ہے۔ ہم دل کی گہرائیوں سے تعزیت پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں میں جگہ دے اور ان کے پیروکاروں کو صبر کی ہمت عطا فرمائے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button