کالمز

بورڈ آف ایلمنٹری ایگزامینشن گلگت بلتستان کے نتائج اور سرکاری سکولوں کی کارکردگی

تحریر : الطاف کمیل

گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام ہے جہاں قدرتی وسائل اور سیاحتی مقامات کے سبب پوری دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے اور حالیہ سی این این کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھی
سیاحتی اعتبار سے گلگت بلتستان کو خوبصورت ترین ڈسٹینیشن ڈیکلیئر کیا گیا ہے جو کہ گلگت بلتستان کی سیاحتی تناظر کے لحاظ سے اہم سنگ میل , حوصلہ افزا اور ساتھ ہی فخر کا مقام ہے ۔۔

سیاحت کہ وجہ سے شہرت حاصل ہونے والا ریجن میں بغور دیگر بنیادی ضروریات کا گہری اور عمیق نظر سے مشاہد کریں تو یہ بات واضح اور عیاں ہوتی ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں زبوں حالی اور انحطاط کا شکار ہے جیسا کہ بنیادی ضروریات تعلیم ، صحت ، کمیونیکیشن اور انفراسٹرکچر میں انحطاط دیکھائی دیتی ہے ۔۔

محترم قارئین کرام راقم صرف تعلیمی مسائل پر گہری نظر سے جائزہ لیں گے اور حکومت کی ناکام پالیسز ، عدم توجہی ور سرکاری اسکولوں میں غیر معیاری تعلیم کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی سعی کریں گے تاکہ حکومت گلگت بلتستان میں معیاری تعلیم کی فروغ کے لیے کوشاں رہے .

گزشتہ روز بورڈ آف ایلمنٹری ایگزامینشن کی جانب سے سے کلاس پنجم اور ہشتم کے نتائج کا اعلان کردیا گیا جس میں مجموعی طور پر نتائج مایوس کن رہے ہیں کلاس پنجم میں پورے گلگت بلتستان سے 28 فیصد طلباء کامیاب رہے جب کی کلاس ہشتم میں مجموعی طور کامیابی کا تناسب صرف 40 فیصد رہا اور اکثر اسکولوں میں تو ایک بھی طالب علم کامیاب نہیں ہوا ان نتائج کے اعلان کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیں اور واضح رہے کہ اس سے قبل بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے ایگزام بھی سرکاری اداروں کے اتنے متاثر کن نہیں تھے۔۔۔ ۔

تعلیم معاشرے کی ناگزیر اور بنیادی ضرورت ہے لیکن یہ المناک حقیقت ہے کہ تعلیم پر کم تر ترجیح دی جاتی ہے اور جن معاشروں میں تعلیم پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے وہ نہ صرف ترقی کے منازل طے کرتے ہیں بلکہ مہارت یافتہ افرادی قوت بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

گلگت بلتستان کا تعلمی نظام زوال اور انحطاط کا شکار کیوں بنا وہ کونسے محرکات اور عوامل کار فرما ہے جس کے سبب تعلمی اداروں کی کارکردگی ناگفتہ بہ ہے۔۔

تعلیمی کارکردگی کی انحطاط کا پہلا عامل سیاسی و بیوروکریٹک مداخلت ہے۔خصوصاً انتظامی امور اور اساتذہ کے تبادلے کے لیے سیاسی اور بیوروکریٹک مداخلت کی جاتی ہے اور اپنے من پسند افراد کے تبادلے اور ڈی ڈی او ، اے ڈی آئی کی تقرری کے لیے پراپر سیاسی لابنگ کی جاتی ہے ہے جس کے سبب نااہل اور غیر تجربہ کار افراد کو تقرر کر کے میرٹ کی پامالی کی جاتی ہے جس کے دور رس اثرات تعلیمی نظام پر پڑتا ہیں ۔۔

دوسرا عامل اساتذہ اور عملے کی تربیت کا فقدان ہے اساتذہ کی کثیر تعداد تدریسی عمل سے مکمل ناواقف ہیں ان اساتذہ کی پراپر ٹریننگ اور ورکشاپس نہ ہونے کے سبب بچوں کو بہتر تعلیم دینے سے قاصر ہخصوصاً محکمہ تعلیم اساتذہ کے لیے ورکشاپس ، ٹریننگ اور سیمنارز منعقد کریں تاکہ ان کی تدریسی عمل میں خاطرہ خواہ بہتری لائی جا سکیں۔۔

تعلیمی نظام کے ذوال کا تیسرا عامل سبجیکٹ اسپشلسٹ کا نہ ہونا ہے بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے پچانوے فیصد اسکولوں میں سبجیکٹ اسپشلسٹ اساتذہ ہے نہیں ان اساتذہ کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ طلباء کو کیا سمجھائے گے۔ اس لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ مقرر کریں تاکہ وہ جدید طریقوں سے طلباء کو بہترین تعلیم دیں سکیں ۔ نتائج کا مایوس کن ہونا یہ اہم وجہ ہے لازماً اس کا تدارک کریں تاکہ طلباء بہتر کارکردگی دیکھا سکیں۔

چوتھا عامل محکمہ تعلیم کی جانب سے اساتذہ کی تدریسی عمل کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی میکینزم نظر نہیں آتا محکمہ کو چاہیے جن اسکولوں کے نتائج خراب ہو ان کی سالانہ ترقی بند کر دی جائے اور جرمانے۔ عائد کی جائے اور ساتھ ہی تدریسی عمل کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی طور پر میکینزم تیار کیا جائے تاکہ بہتر کارکردگی کی امید مل سکیں ۔۔

پانچواں عامل ہمارا تعلمی نظام دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے محکمہء ہذا کو چاہیے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آئ ٹی لیب اور جدید ٹیکنالوجی سے طلباء کو متصل کریں تاکہ طلباء میں نئی ٹیکنالوجی سے سیکھنے کا مواقع فراہم ہو اور اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرکے اپنے لیے بہتر مستقبل تلاش کر سکیں ۔۔

چھٹا عامل حکومت کا پرائیویٹ اداروں سے خصوصاً این جی آوز سے شراکت داری کا نہ ہونا ہے کیونکہ این جی آوز تعلیم پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جیسا کہ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام معیاری تعلیم فراہم کرنے میں اپنی مثال آپ ہے اس طرح کے اور دیگر اداروں کے ساتھ کوارڈینیشن کرکے معیاری تعلیم فراہم کی جاسکتی ہے ۔۔

ساتویں عامل  رٹا اور رٹا ہے بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں طوطے کی طرح رٹا فیکیشن کا رجحان عام ہے ہم ابھی تک بچوں میں تنقیدی و تحقیقی رجحان کو پروان چڑھانے میں مکمل ناکام ہے اب ہمیں اس رٹافیکشن کلچر کو ختم کرکرنے کی ضرورت ہے کریٹیکل سوچ ہی قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔۔

آٹھواں عامل نظام امتحانات کا لیول بہت غیر معیاری ہے کیونکہ امتحانی نظام میں احتساب کا عمل بلکل نہیں ہے حکومت کی جانب چیک اینڈ بیلنس کا کوئی میکینزم نہیں ہے ۔۔

گلگت بلتستان حکومت اور محکمہ تعلیم کے لیے ابھی وقت ہے کہ اس ہونی کو ٹالنے کا بندوست کریں اور ترجیحی اور ہنگامی اقدامات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ریجن کی ترقی کے لیے معیاری تعلیم مہیا کرنا از بس ضروری ہے او ر اس مشک کے سوراخوں کو بند کرنا چاہیے اور فوری تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنا چاہئے ۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button