کالمز

سچ پوچھئے تو جانِ گلستاں ہے شاہِ کریم

چار فروری سے اب تک دنیا بھر سے ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کی ہمہ جہت شخصیت اور خدمتِ انسانیت پر جو کچھ پڑھنے اور سننے کو ملا، وہ  سب دل کو چھو لینے والا تھا۔ عالمی رہنما، دانشور اور اربابِ فکر جس عقیدت و احترام سے امام علیہ السلام کی یاد میں محبت کے نذرانے پیش کر رہے تھے، وہ نہ صرف ان کی بے مثال قیادت کا اعتراف تھا بلکہ اس روشنی کا بھی ثبوت تھا جو انہوں نے نسلوں کے دل و دماغ میں اجال دی۔

میرے پاس الفاظ ہی نہیں کہ اس عقیدت کے سمندر کا شکر کیسے ادا کروں۔ بس دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان سب کو بے پایاں برکتیں عطا فرمائے اور امامِ عالی مقام کی وراثت کو تا قیامت قائم و دائم رکھے۔ آمین!

پرنس کریم آغا خان محض ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک تحریک، اور ایک آفاقی وژن کی جیتی جاگتی تعبیر تھے۔ وہ صرف ایک رہنما نہیں، بلکہ امید کی وہ روشنی تھے جو دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھتی، علم و حکمت کے چراغ جلاتی اور معاشرے میں امن، آشتی، ترقی اور خوشحالی کے رنگ بکھیرتی تھی۔ ان کی خدمات کسی ایک میدان تک محدود نہیں تھیں۔وہ سماجی انقلاب کے معمار، معاشرتی اصلاح کے علمبردار، تعلیم و ترقی کے داعی اور امن و محبت کے سفیر تھے۔ اس سب سے بڑھ کر، وہ ایک روحانی پیشوا تھے جن کی بصیرت افروز قیادت کروڑوں دلوں پر راج کرتی رہی اور رہتی دنیا تک چراغِ ہدایت بن کر تابندہ رہے گی۔

ان کی دوراندیش قیادت نے تعلیم، صحت    اور سماجی ترقی کے میدان میں ایسی انقلابی اصلاحات متعارف کرائیں جنہوں نے لاکھوں زندگیوں کو سنوارا اور خوشحالی کی نئی راہیں کھولیں۔ ان کے فراخدلانہ اقدامات نے کئی پسماندہ معاشروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا، جہاں روشنی کی ایک نئی کرن ابھری۔ انہوں نے دنیاوی ترقی کے ایسے دیرپا اصول وضع کیے جو نہ صرف موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔

 ان کے ترقیاتی اقدامات نے دنیا کے کئی پسماندہ علاقوں میں خوشحالی کے نئے دروازے کھولے۔ تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ انہوں نے زراعت، توانائی، مواصلات اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے فلاحی منصوبے کسی ایک قوم یا برادری تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ انسانیت کی بھلائی کے اصول پر قائم تھے، جن سے نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد یکساں طور پر مستفید ہوئے۔

پرنس کریم آغا خان ہمیشہ بین المذاہب اور بین الثقافتی ہم آہنگی کے داعی رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ حقیقی ترقی اور پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب مختلف مذاہب اور طبقات مل کر کام کریں۔ انہوں نے اسماعیلی جماعت کو  ہمیشہ یہی تلقین کی کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں مقامی کمیونیٹیز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ باہمی رواداری، ہم آہنگی، اور خیر سگالی کو فروغ دیکر معاشرتی ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکیں۔

ان کی یہی بصیرت اور  بے باک قیادت صحافتی دنیا میں بھی ایک روشن مثال بنی۔ برسوں قبل،  افریقہ میں ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کے قائم کردہ ’نیشن میڈیا گروپ‘ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسرز بھی ان کی اعلیٰ بصیرت، بے باک قیادت اور عاجزی کے آج بھی معترف رہے ۔ ان کے نزدیک، ہزہائنس آغاخان کی رہنمائی محض ایک رسمی منصب نہ تھی بلکہ ایک ایسا روشن مینار تھی، جس نے آزادیِ صحافت، جمہوریت کے فروغ اور سچائی کی ترویج کے اصولوں کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔

 نیشن میڈیا گروپ کے سابق سی ای او لینس گیتاہی   اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی ہر چھ ماہ بعد پرنس کریم آغا خان سے ملاقات ہوا کرتی تھی، جو ان کے لیے ایک زندگی بدل دینے والا تجربہ ثابت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ ملاقاتیں محض رسمی نہیں تھیں بلکہ ایسے تجربات تھیں جنہوں نے میری قیادت، سول سوسائٹی اور جمہوریت کے فروغ میں میڈیا کے کردار کو سمجھنے کی صلاحیت کو نکھارا۔‘‘

 اسٹیفن گِٹاگاما، جو تقریباً گیارہ سال تک نیشن میڈیا گروپ میں بطور فنانس ڈائریکٹر خدمات انجام دیتے رہے، ہزہائنس کی عاجزی کے گواہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم ادارے کے سالانہ منصوبوں پر ہزہائنس سے ملاقات کرتے  رہتےتھے۔ وہ ایک نہایت منکسر المزاج رہنما تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر میں میٹنگ بلائی اور خود این ایم جی کی مینجمنٹ کو چائے پیش کی۔یہ عمل ان کی سادگی، انسان دوستی اور قیادت میں انفرادیت کی بہترین مثال ہے۔‘‘

پرنس کریم آغا خان کا مشن محض ترقیاتی منصوبوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ ایک ایسی فکری تبدیلی کے داعی تھے جو اقوام کو خودمختاری، خودداری اور جدت کی راہ پر گامزن کرے۔ ان کی میراث کسی خاص خطے یا برادری تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا چراغ ہے جو رہروؤں کو منزل کا پتہ دیتا رہے گا۔

امام علیہ السلام کا وژن  علم، ترقی اورخدمتِ انسانیت کےایک  عالمگیر معاشرے کا عکاس تھا ۔ وہ انسانیت کے آسمان پر ایک درخشاں ماہتاب تھے، جن کی روشنی ہر اس شخص تک پہنچی، جس نے اپنی استعداد کے مطابق اس سے فیض حاصل کرنا چاہا۔ امامِ عالی مقام کی علمی اور روحانی روشنی نے نہ صرف لوگوں کی سوچ اور بصیرت کو جِلا بخشی بلکہ انہیں ترقی، خدمتِ خلق اور فلاحی جدوجہد کی  اس راہ پر گامزن کیا  جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔دکھی صاحب نے کیا خوب فرمایا تھا۔

ظلمت کدوں میں شمع فروزاں ہے شاہِ کریم
اہلِ وطن پہ کتنا مہرباں ہے شاہِ کریم
گلشن کے ارتقا میں بڑا ان کا ہاتھ ہے
سچ پوچھئے تو جانِ گلستاں ہے شاہِ کریم

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button