کالمز

ناقص پالیسیوں کا تسلسل اور مصنوعی نتائج

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، مگر جب یہی نظام ناقص پالیسیوں، بدانتظامی اور مصنوعی اصلاحات کی نذر ہو جائے، تو وہ ایک نسل کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے، گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورتحال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ حالیہ حکومتی اقدامات نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

حکومت اور محکمہ تعلیم کی جانب سے کیے گئے فیصلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی توجہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بجائے محض نمبروں کے کھیل پر مرکوز ہے۔ پانچویں اور آٹھویں جماعت کے حالیہ نتائج انتہائی خراب آنے کے باوجود، ان مسائل کی اصل وجوہات پر غور کرنے کے بجائے ایک غیر منطقی فیصلہ کیا گیا پاسنگ مارکس کم کر کے طلبہ کو جبری طور پر پاس کرنے کا منصوبہ۔ یہ اقدام درحقیقت تعلیم کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے اور اس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام میں بگاڑ کی کئی بنیادی وجوہات ہیں، جن پر قابو پائے بغیر کوئی بھی اصلاحی اقدام محض نمائشی ہی رہے گا۔ بیشتر سرکاری اسکولوں میں اساتذہ جدید تدریسی طریقوں سے ناواقف ہیں، جس کے باعث طلبہ کو معیاری تعلیم نہیں ملتی، طلبہ سال کے بیشتر مہینے بغیر کتابوں کے پڑھتے ہیں، اور جب نصاب فراہم کیا جاتا ہے، تو امتحانات قریب ہوتے ہیں، جس سے وہ مناسب تیاری نہیں کر پاتے، ہر سال کوئی نہ کوئی نیا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، جیسے پاسنگ مارکس میں کمی یا امتحانی نظام میں اچانک تبدیلیاں، جس سے طلبہ اور اساتذہ دونوں الجھن کا شکار ہوتے ہیں، سکولوں کی نگرانی اور کارکردگی جانچنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے تعلیمی معیار گرتا جا رہا ہے۔

حال ہی میں حکومت نے ناقص نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ایک اور غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ پاسنگ مارکس کو 40 سے کم کر کے دوبارہ 33 کر دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلبہ کو اصل تعلیمی مسائل حل کیے بغیر صرف اچھے نتائج دکھانے کے لیے پاس کیا جائے گا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں تعلیمی معیار مزید گرے گا جب طلبہ کو بغیر محنت کے پاس ہونے کا یقین ہو گا تو وہ مطالعہ اور محنت سے دور ہو جائیں گے، پانچویں اور آٹھویں کے طلبہ اگر بغیر سیکھے جبری طور پر پاس ہوتے رہے، تو وہ آگے جا کر مزید تعلیمی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے، ناقص تعلیمی پالیسیوں کو چھپانے کے لیے طلبہ کو زبردستی پاس کیا جائے گا، جس سے امتحانی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔

حکومت نے ایک اور عجیب فیصلہ کیا کہ فیل ہونے والے طلبہ سے دوبارہ امتحان لیا جائے گا، تو اس بار اساتذہ ہر ممکن طریقے سے طلبہ کو پاس کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اساتذہ نقل کروانے میں کردار ادا کریں گے تاکہ اسکول کے نتائج بہتر نظر آئیں اور ان پر کوئی دباؤ نہ آئے، سفارش اور دباؤ کا کلچر بڑھے گا، جس میں والدین اور افسران اساتذہ پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ طلبہ کو کسی بھی طریقے سے پاس کریں، حقیقی تعلیمی مسائل کو دبایا جائے گا کیونکہ حکومت کو مصنوعی طور پر اچھے نتائج درکار ہیں، چاہے وہ جعلی طریقوں سے ہی کیوں نہ حاصل کیے جائیں۔

میرے خیال میں اس وقت گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مصنوعی اور نمائشی اقدامات کے بجائے کچھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے نصابی کتب اور تدریسی سہولیات کی بروقت دستیابی یقینی بنائی جائے، اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ طلبہ کو بہتر انداز میں پڑھا سکیں، ہر سال تعلیمی پالیسی میں غیر منطقی تبدیلیوں کے بجائے ایک مستقل اور پائیدار تعلیمی پالیسی متعارف کروائی جائے، پاسنگ مارکس کم کرنے اور زبردستی طلبہ کو پاس کرنے کے بجائے ان کے بنیادی تعلیمی مسائل حل کیے جائیں، کمزور طلبہ کی اصل وجوہات تلاش کر کے ان کی بہتری کے لیے خصوصی کلاسز یا ریفارمز پروگرام متعارف کروایا جائے کیونکہ گلگت بلتستان میں تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ حکومت اور محکمہ تعلیم کی جانب سے نمائشی اصلاحات اور ناقص پالیسیوں کے باعث طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ اگر ہم نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو یہ تعلیمی بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا، اور آنے والی نسلیں ایک غیر معیاری تعلیمی نظام میں پروان چڑھیں گی، جو نہ صرف ان کے بلکہ علاقے کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔

تعلیم محض نمبروں کا کھیل نہیں بلکہ ایک قوم کی ترقی کی بنیاد ہے، اور اگر ہم نے اپنی بنیاد کو ہی کھوکھلا کر دیا تو مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ تعلیمی بہتری کا راستہ مصنوعی اصلاحات نہیں، بلکہ سنجیدہ اور عملی اقدامات ہیں۔ جب تک پالیسیوں میں تسلسل، اساتذہ کی تربیت، نصاب کی بروقت دستیابی اور امتحانی شفافیت کو یقینی نہیں بنایا جاتا، تب تک گلگت بلتستان میں تعلیم محض ایک سرکاری خانہ پری کے سوا کچھ نہیں رہے گی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button