” حقوق دو، ڈیم بناؤ”

ایک زمانہ تھا جب گلگت بلتستان کی فضائیں "بھاشا ڈیم نامنظور” کے نعروں سے گونجتی تھیں۔ ہر طرف احتجاج، مظاہرے اور عوامی غصہ نمایاں تھا۔ مطالبہ سادہ تھا،”حقوق دو، ڈیم بناؤ” یعنی جب ڈیم دیامر کے حدود میں بن رہا ہے تو فائدہ کسی اور کوکیوں؟ عوام کا مطالبہ تھا کہ ڈیم کا نام "دیامر ڈیم” رکھا جائے، رائلٹی گلگت بلتستان کو دی جائے، زمینوں کا معاوضہ دیا جائے، متاثرین کی دوبارہ آبادکاری یقینی بنائی جائے، صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقعے فراہم کئے جائے وغیرہ۔
اس عوامی احتجاج کااقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے جب ڈیم بنانے کی ٹھانی، تو متاثرین کے تحفظات کسی کھاتے میں ہی نہ آئے۔ کچھ کو سبز باغ دکھا کر خاموش کرایا گیا، تو کچھ کو مقدمات میں الجھا کر پابندِ سلاسل کیاگیا۔ عوامی غصے کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لیے نام بدل کر "دیامر بھاشا ڈیم” تو رکھ دیا، مگر حقیقت وہی رہی۔وعدے وفا نہ ہوئے، حقوق ملے نہ زمینوں کے جائز معاوضے اور متاثرین آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
بھاشا ڈیم کا منصوبہ پرویز مشرف کے لیے بھی کوئی نیا نہیں تھا۔ یہ منصوبہ 1980 کی دہائی میں زیر غور آیا، مگر سرخ فیتے کی نذر ہو کر 1998 تک فائلوں میں ہی گردش کرتا رہا۔ اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف نے اس کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا، مگر سیاسی عدم استحکام، بدانتظامی اور عالمی طاقتوں کے تحفظات کے سبب یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا۔
2006 میں پرویز مشرف نے شدید عوامی مزاحمت کے باوجود اس منصوبے کو دوبارہ متحرک کیا اور اس وقت کے وزیرِاعظم شوکت عزیز کے ہاتھوں ڈیم کاسنگِ بنیاد رکھ دیا۔ بعد میں 2011 میں وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس کا دوبارہ افتتاح کیا۔ بعدازاں، ہر آنے والی حکومت ،چاہے وہ شوکت عزیز کی ہو، عمران خان کی یا شہباز شریف کی ، سب نے اس منصوبے کا دورہ تو کیا، مگر متاثرین کے مسائل حل کرنے میں کسی نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔
بلا شبہ،دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ پانی ذخیرہ کرے گا، بجلی پیدا کرے گا، زراعت کو ترقی دے گا اور سیلاب کے خطرات کو کم کرے گا۔ مگر اس کے چندمضمرات بھی توہیں۔درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے، ہزاروں خاندان بے گھر ہو جائیں گے، لاکھوں ایکڑ اراضی ڈیم کی نذر ہو جائے گی، قدیم ثقافتی ورثہ اور قدرتی ماحول ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہوگا۔ یہی وہ وجوہات تھیں، جن کی بنا پر گلگت بلتستان کے عوام خصوصاً ڈیم کے ممکنہ متاثرین سراپا احتجاج تھے۔
تاہم، جب متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان ہوا تو احتجاج کی شدت مدھم پڑ گئی۔جیسے ہی متاثرین کے نقصانات کے تخمینے کا عمل شروع ہوا تو اس دوران خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان حد بندی کا تنازعہ سنگین ہو گیا، جو مسلح تصادم میں بدل گیا۔ دونوں اطراف کے قبائل آمنے سامنے آ گئے، خون بہا، چھ افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پیراملٹری فورسز کو مداخلت کرنا پڑی۔ نواز شریف حکومت نے تحقیقاتی کمیشن بنایا، مگر اس کی رپورٹ آج تک لاپتہ ہے۔
پھرجب حالات کچھ سنبھلے تو فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور چینی کمپنی پاور چائنا کے اشتراک سے ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ ابتدائی لاگت 14 ارب ڈالر مقرر کی گئی تھی، جو وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ منصوبے کی تکمیل کا ہدف 2029 مقرر اور اس سے 4,500 میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے۔ ڈیم کی زد میں آنے والی شاہراہ قراقرم کے متبادل کے طور پر دونوں اطراف میں نئی سڑکیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔
عین اس وقت جب دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے، چلاس میں عوام نے ایک بار پھر "حقوق دو، ڈیم بناؤ” تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے مظاہرین 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ مطالبات وہی ہیں، زمینوں کا مکمل معاوضہ، متبادل آبادکاری، تعلیم و صحت کی سہولیات، مقامی نوجوانوں کے لیے ملازمتیں، مفت بجلی، ثقافتی ورثے کا تحفظ اور ڈیم کی رائلٹی گلگت بلتستان کو دینا۔
یہ احتجاج اب صرف متاثرین تک محدود نہیں رہا۔ پورے دیامر اور گلگت بلتستان کے عوام میدان میں آ چکے ہیں۔ سیاسی و سماجی تنظیمیں، مذہبی جماعتیں اور قوم پرست قیادت سب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو چکے ہیں۔ پہلے مرحلے میں مظاہرین نے چلاس میں پرامن احتجاج کیا۔ اب اگلے مرحلے میں ڈیم سائٹ کی طرف مارچ کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو عوامی سیلاب کسی بھی وقت ڈیم سائٹ پر پہنچ سکتا ہے۔
دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کا یہ احتجاج کوئی نیا نہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام اس سے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے کئی بار سڑکوں پر نکل چکے ہیں، چاہے وہ گندم سبسڈی کا معاملہ ہو، غیر قانونی ٹیکسوں کا خاتمہ ہو یا آئینی حقوق کا مطالبہ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جب عوامی احتجاج ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو حکمران وقتی حل دے کر اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس بار بھی حکومت کوئی چالاکی دکھا کر دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو وقتی طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کرے گی۔
لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام پہلے سے زیادہ باشعور ہو چکے ہیں۔ نہ وہ کسی کے بہکاوے میں آئیں گے، نہ اپنے حقوق سے پیچھے ہٹیں گے۔ یہ صرف ڈیم متاثرین یا دیامر کے عوام کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ گلگت بلتستان کی ایک قومی تحریک بن چکی ہے، جسے عوام باہمی اتحاد، قومی غیرت اور عزمِ صمیم کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔