کالمز

فرقوں کی دیواریں اور ٹوٹتی روایات

گلگت بلتستان اور چترال کبھی مذہبی ہم آہنگی، اخوت اور بھائی چارے کی ایسی شاندار مثال تھے جہاں محبت مسلکی حد بندیوں سے ماورا تھی۔ یہاں کے لوگ فرقہ واریت کے تعصبات سے بے نیاز، ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ خوشی ہو یا غم، لوگ مل کر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے تھے اور ہر تہوار سب کے لیے یکساں مسرت اور محبت کا پیغام لے کر آتا تھا۔ خونی رشتوں میں محبت کی ڈور اس قدر مضبوط تھی کہ جسے کسی مسلک کی تفریق کمزور نہ کر سکی۔

مساجد کے مینار الگ ضرور تھے، مگر دلوں کی روشنی ایک تھی۔ یہاں کسی کو اس بات سے سروکار نہ تھا کہ سامنے والا کس فرقے سے ہے، کیونکہ پہچان مذہب سے زیادہ انسانیت تھی اور قدر اخلاقی اصولوں کی تھی۔ یہی وہ گلگت بلتستان اور چترال تھا، جہاں اخوت کا ہر رنگ خوشبو بن کر بکھرتا تھا اور بھائی چارے کی روایت نسل در نسل منتقل ہوتی تھی۔

مگر وقت کے ساتھ حالات اور رویے بھی بدل گئے۔ سیاست، علاقائی مفادات اور بعض بیرونی عناصر نے اس خوبصورت ہم آہنگی میں دراڑیں ڈال دیں۔ جو علاقے کبھی محبت اور بھائی چارے کی علامت تھے، وہ اب فرقہ واریت کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں۔

گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات نے نہ صرف امن و امان تباہ کیا بلکہ روزمرہ زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ تعلیمی ادارے، بازار، اسپتال، زندان ،حتیٰ کہ ٹرانسپورٹ اور سڑکیں بھی فرقہ وارانہ شناخت سے مشروط ہو گئیں۔ پھر جگہ جگہ مسلح چوکیوں اور بکتر بند گاڑیوں کے گشت سے وقتی استحکام تو ضرور آیا، مگر ایک دوسرے کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے سے اجتناب جیسی روایات آج بھی قائم ہیں۔

چترال بھی ایک عرصے سے اسی صورتحال کا شکار تھا، جس کا نقطہ عروج  چترال بازار کی حالیہ فرقہ وارانہ تقسیم ہے۔ چترال بازار کی تقسیم کو ضلعی انتظامیہ نے امن و امان کی بحالی کا اقدام قرار دیا ہے، مگر سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امن و امان کا واحد حل تقسیم ہے؟ کیا بھائی چارے کے فروغ کی بجائے دیواریں کھڑی کرنا ہی مسئلے کا حل رہ گیا ہے؟

فرقہ واریت کسی قدرتی آفت کی طرح اچانک نہیں آتی، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم سوچ کارفرما ہوتی ہے، جو عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مذہبی کشیدگی بڑھی، اس کا شکار عام لوگ بنے، جن کا نہ تو سیاست سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی ان تنازعات میں کوئی کردار۔

اس تفرقے کا سب سے بڑا نقصان ترقی کی رفتار کا رک جانا ہے۔ جب معاشرہ عدم اعتماد کا شکار ہو، لوگ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھیں اور اجتماعی مسائل کے حل کی بجائے مذہبی تفریق میں الجھ جائیں، تو خوشحالی ممکن نہیں رہتی۔

گلگت شہر کی حالت اس کی جیتی جاگتی مثال ہے، جہاں بجلی کا بحران، پینے کے صاف پانی کی قلت، خستہ حال سڑکیں، گرتا ہوا معیار تعلیم اور ناقص طبی سہولیات، سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ کی ناقص سروس نے کاروبار اور تعلیمی سرگرمیوں کو مفلوج کر رکھا ہے۔ ہر طرح سے مسائل کے انبار میں گھرایہ شہر اب ایک ایسے بے بس یتیم کی مانند لگتا ہے جو اپنی بقا کے لیے کسی مسیحا کا منتظر ہو۔ باوجود اس کے، عوام  ان اجتماعی مسائل کے حل کے لیے بلا تفریق آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

اگر چترال کے مسئلے پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ یہ وہی چترال ہے جہاں کھوار موسیقی کی مدھر تانیں فضاؤں میں گھلتی تھیں اور رقص کی راہ میں عقائد کبھی دیوار نہ بنتے تھے۔ جہاں محبت، سادگی اور مہمان نوازی صرف روایات نہیں، بلکہ طرزِ زندگی تھے۔ جہاں کے دریا، وادیاں اور پہاڑ صدیوں سے امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کے گواہ رہے ہیں۔

لیکن آج وہی چترال فرقہ واریت کی زنجیروں میں جکڑنے کی سازش کا شکار ہے۔ کیا یہ وہی سرزمین ہے جہاں عقائد نہیں، دل قریب تھے؟ جہاں رنگ، نسل اور مسلک سے بالاتر ہو کر سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نفرت کے بیج بوئے گئے، سب سے پہلے محبت کے باغ اجڑے اور اخوت کی فضائیں ویران ہوئیں۔

چترال کی تاریخ، ثقافت اور روایات اس مصنوعی تقسیم سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ اگر اس آزمائش میں ناکامی ہوئی تو یہ محض ایک خطے کا نقصان نہیں ہوگا، بلکہ محبت، اخوت اور بھائی چارے کی ایک شاندار تہذیب کا زوال ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اہلیانِ چترال اپنی دھرتی کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھنے سے بچائیں، نفرت کی دیواروں کو ڈھا دیں اور ثابت کریں کہ اصل خوبصورتی یکجہتی میں ہے،اختلاف کے باوجود ساتھ جینے میں ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button