کالمز

گلگت بلتستان میں بے تربیت تعلیم

دو ہزار اٹھارہ میں ایک ریسرچ فیلو شپ کے سلسلے میں کچھ عرصے کے لیے جاپان میں مقیم تھا۔ میری رہائش ٹوکیو کے ایک انتہائی متمول اور ڈپلو میٹک علاقے روپنگی میں واقع جاپان ہاوس میں تھی۔ اس عمارت کے سامنے ایک انتہائی مشہور سکول تھا جہاں امیروں اور سفیروں کے بچے پڑھتے تھے۔ میں ہر روز اس سکول کے بچوں کو پیدل آتے جاتے دیکھتا تھا۔ لیکن میں نے یہاں کبھی کسی بڑی گاڑی میں بچوں کو ڈراپ اور پک ہوتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ اس میں امیر کبیر لوگ پڑھتے تھے۔ تجسس کے مارے میں نے ہماری ایک جاپانی ساتھی، جو اسی سکول سے ہی فارغ التحصیل تھی، سے سکول کے سامنے گاڑیاں نا ہونے کی وجہ پوچھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں پر داخلہ ملنے کے بعد بچوں کے ماں باپ کو پک اینڈ ڈراپ کرنا ممنوع ہے۔ اسی لیے داخلے کے بعد ہی اساتذہ اپنے ساتھ بچوں کو پہلے تین ہفتے تک اپنے ساتھ سکول سے گھر لے چلتے ہیں تاکہ بچے آنے جانے کے راستوں سے واقف ہو جائیں۔ جب بچے راستے سے واقف ہوجاتے ہیں تو وہ خود ہی بس یا ٹرین سے سکول آنا جانا شروع کردیتے ہیں۔
اب جاپان کے سماجی رویوں کا اپنے معاشرتی رویوں کے ساتھ تقابلہ کرتے ہیں۔ پھر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے کہ ہمارے ساتھ کیا مسلہ ہے۔
پچھل چند ہفتوں کے دوران مجھے پبلک سکول اینڈ کالج جٹیال کے پاس سے سکول کے چھٹی کے وقت تین دفعہ گزرنے کا اتفاق ہوا۔ سکول کے باہر جو منظر تھا، وہ علمی درسگاہ کا کم اور لاری اڈے سے بھی گیا گزرا منظر زیادہ پیش کررہا تھا۔ سکول کے سامنے چوڑی سژک کے دونوں اطراف کو تین تین رو میں بڑی گاڑیوں نے گھیرا ہوا تھا۔ اور مجال ہے کہ ٹس سے مس ہوں۔ ہمت کرکے ایک سبز نمبر پلیٹ کی گاڑی کو جگہ دینے کی درخواست تو ڈرائیور نے کسی بڑے آفیسر کا نام بتایا کہ وہ فلاں صاحب کے بچے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ میں کہا کہ بچے صاحب کے ہونگے، مگر سڑک ان کی نہیں۔ اس گستاخی پر ڈرائیور کو تپ چڑھی اور مجھے کہا کہ سڑک بھی صاحب کی ہے جو بگاڑنا ہے بگاڑلو۔ جب صاحب کا ڈرائیور اتنا طاقتور تھا تو میں صاحب کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ اس سے تھوڑی ہی آگے ایک فوجی گاڑی بھی ایک جگہے پر، جہاں پر پارگنگ منع ہے کا نشان تھا، ٹریفک کو روکے ہوے کھڑی تھی۔ اب روکے تو ان کو کون روکے؟ 
یہ واقعات پبلک سکول تک محدود نہیں، بلکہ ہر اس سکول کے باہر دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں گلگت کے امیروں، افسروں اور پڑھے لکھے لوگوں کی اولادیں پڑھتی ہیں۔ ایسا کچھ میرے ساتھ کچھ سال پہلے بھی ایک دوسڑے بڑے سکول کے سامنے ہوا تھا۔ میں این ایل ائی مارکیٹ میں الحیات سکول کے سامنے فیملی کے ساتھ ٹیکسی میں ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا کہ اچانک بمپر اور بعد میں سامنے بانیٹ پہ زور سے مکے مارتا ہوا پولیس نظر آیا۔ وہ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کار کو ہم آگے لے جائیں۔ میں نے عرض کیا کہ ٹریفک جام ہے۔ وہ کہنے لگا کہ اسے ہر حال میں جگہ چاہیے۔ جب کار نہیں ہلی تو بانٹ پر بٹ مار کر دھمکیاں دینے لگا کہ گاڑی میں ڈی ایس پی کے بچے ہیں۔ وہ حکم عدولی پر تھانے میں بند کرسکتا ہے۔
تھانہ نہیں ہوا، بلکہ پولیس آفیسر کا اصطبل ہوگیا جہاں اس کا ملزم جس کو چاہے باندھ سکتا ہے۔
اسی طرح کا گاڑیوں اور طاقتوروں کا شو روم آپ کو آغاخان ہائیر سیکنڈری اوردیگر نامور سکولوں کے باہر دیکھنے کو ملے گا۔ والدین بچوں کو بس، سوزوکی یا پیدل سکول بھیجنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ بچوں میں بھی در آتا ہے کیونکہ وہ پیدل چلنے والوں کو الگ اور کمتر مخلوق سمجھتے ہیں۔
یہ سب چیزیں کیا ظاہر کرتی ہیں؟
یہ چیزیں بذات خود بیماریاں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک گہرے سماجی بیماری کی علامات ہیں۔ یہ بیماری سماج کے دل و دماغ میں پیوستہ وہ خیالات ہیں جو سماج کے تار و پود کو کتر کر کھا رہے ہیں۔ سکول کے باہر جن رویوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وہ کسی ارفع سماج اور ذہنیت کے حامل سماج اور دماغ کی علامات نہیں بلکہ جدیدیت میں نئے جسم کے ساتھ پرانے دقیانوسی خیالات گھسیٹ کے لانے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سماجی علوم کی تھیوریاں بھی ہماری صورتحال کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
عام طور پہ یہ کہا جاتا ہے کہ اخلاقیات غریب افورڈ نہیں کرسکتا ہے اور ناخواندہ شہری ادب و اداب سے ناشناش ہوتے ہیں۔ لیکن گلگت میں معاملہ الٹ ہے۔ سکولوں کے باہر جن بدتہذیب رویوں اور حرکات کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ان سب کا مرتکب ہمارا متمول اور پڑھا لکھا طپقہ اور ان کی اولاد ہوتی ہے۔ بڑے سکولوں کے باہر والا اودھم آپ کو حکومتی سکول کے باہر نہیں ملے گا۔ پیدل چلنے والا غریب گاڑی والے کی طرح ہرزا سرائی نہیں کرسکتا ہے۔ پیدل کیا تو پیدل کا شوربہ کیا۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جن سکولوں نے اپنے کندھوں پر بہترین کے تمغے سجاۓ ہوے ہیں وہ اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ ان کی دہلیز پہ کیا ہورہا ہے؟
تعلیمی مفکرین کا کہنا ہے کہ دل کی تربیت کے بغیر دماغ کی تربیت سرے سے تعلیم ہی نہیں ہے۔ یعنی اقدار اور اخلاقیات کے بغیر تعلیم جہالت ہے۔ جاپانیوں کو اس چیز کا ادراک ہے۔ اسی لئے وہ سکول کے ابتدائی پانچ سالوں میں سماجی اخلاق کی تربیت دیتے ہیں۔ بس میں وہ طور طریقے سکھاۓ ہیں کہ کس طرح سماج میں برتاو کرنا ہے۔ گلگت بلتستان میں بغیر دل کے ایسا دماغ تیار کیا جا رہا جو اپنے دماغ کو کھانے کے ساتھ معاشرے کو بھی کھا رہا ہے۔ آج جو سماجی، حکومتی اور اداراجاتی ابتری نظر آرہی ہے، وہ اس سماجی دماغ کا ہی شاخسانہ  ہے جس کے پاس دل نہیں ہے۔ اس ابتری میں بگروٹ، دینتر چھلت ہوشے یا پھنڈر کے چرواہے کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اب وقت أگیا ہے کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے پانچ سال تک ساری کتابیں ظبط کی جاۓ اور بچوں اور والدین کو سماجی اخلاقیات کی تربیت دی جاۓ۔ تبھی تعلیم فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ورنہ بغیر اقدار کے تعلیم کے نام پر دماغ کی تربیت مزید تباہی کا سبب بنے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button