کالمز

بلتستان میں پرائیویٹ سکولوں کا مقصد: تعلیم یا کاروبار؟

بلتستان جیسے خوبصورت اور پُرامن خطے میں تعلیمی ترقی نہایت ضروری ہے، اور اس میں پرائیویٹ سکولوں کا کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سکولز معیاری تعلیم کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، کیونکہ سرکاری تعلیمی ادارے تاحال کئی بنیادی مسائل سے دوچار ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کی من مانی پالیسیاں والدین اور طلبہ کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ جہاں یہ ادارے تعلیمی معیار بلند کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں، وہیں فیسوں میں بے جا اضافے، اساتذہ کے استحصال اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے باعث شدید تنقید کی زد میں بھی ہیں۔

پرائیویٹ سکولوں نے بلتستان میں جدید طرزِ تعلیم کو فروغ دیا ہے، کیونکہ سرکاری تعلیمی ادارے اکثر وسائل کی کمی، غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور ناقص تعلیمی پالیسیوں کے سبب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جدید تدریسی طریقے، انگلش میڈیم نصاب، ہم نصابی سرگرمیاں اور ڈیجیٹل لرننگ جیسے عوامل نجی تعلیمی اداروں کو ایک بہتر انتخاب بناتے ہیں۔ بہتر تدریسی ماحول، سمارٹ کلاسز اور تخلیقی سرگرمیاں بچوں کی ذہنی نشوونما میں مدد دیتی ہیں اور انہیں مقابلے کے اس دور میں آگے بڑھنے کے قابل بناتی ہیں۔ لیکن کیا یہ سب کچھ مناسب قیمت پر میسر ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں پرائیویٹ سکولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔

بلتستان میں ہر گلی کوچے میں لوگ اپنی مرضی سے سکول کھول رہے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر ادارے کسی مناسب تعلیمی معیار اور حکومتی اجازت کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ نہ کوئی سخت نگرانی ہے اور نہ ہی کوئی ضابطہ، جس کے باعث تعلیم ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے۔

بعض سکولوں میں طلبہ کو داخلے کے وقت مطلوبہ تعلیمی سرٹیفیکیٹ کے بغیر ہی داخل کر لیا جاتا ہے تاکہ طلبہ کی تعداد زیادہ دکھائی جا سکے اور فیسوں سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اس غیر معیاری پالیسی کی وجہ سے طلبہ کی تعلیمی بنیاد متاثر ہوتی ہے اور وہ آگے چل کر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

پرائیویٹ سکولوں کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ نصابی کتابیں، یونیفارم اور یہاں تک کہ کاپیاں بھی خود فروخت کرتے ہیں اور والدین پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ بازار میں کم قیمت پر دستیاب متبادل خریدنے کے بجائے سکول کے مہنگے پیکجز خریدیں۔ یہ پالیسی والدین پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالتی ہے، جو کسی طور منصفانہ نہیں۔

مزید برآں، سردیوں میں تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے باوجود والدین سے پوری فیس وصول کی جاتی ہے، جبکہ اساتذہ کو آدھی تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ بعض نجی سکولوں میں کلاس روم میں استعمال ہونے والے سٹیشنری آئٹمز بھی بچوں سے زبردستی خریدوائے جاتے ہیں، جو کہ مالی استحصال کی ایک اور شکل ہے۔

چونکہ تعلیمی اداروں کے لیے کسی قسم کا سرکاری فیس سٹرکچر موجود نہیں، اس لیے ہر سکول من مانی فیسیں مقرر کر رہا ہے، جو والدین کے لیے ناقابلِ برداشت بنتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے سکول کم تنخواہ پر غیر تربیت یافتہ افراد کو بطور استاد بھرتی کر لیتے ہیں، جس سے تعلیمی معیار متاثر ہوتا ہے۔ اگر معیاری تعلیم کو برقرار رکھنا ہے تو اساتذہ کی بھرتی کے لیے سخت اصول مقرر کرنا ہوں گے۔

یہ تمام مسائل اس لیے جنم لے رہے ہیں کہ پرائیویٹ سکولوں پر حکومتی سطح پر کوئی مؤثر نگرانی موجود نہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ فیسوں کے لیے ایک سرکاری سٹرکچر متعین کیا جائے، اساتذہ کی تنخواہوں اور بھرتی کے معیار کو یقینی بنایا جائے، کتابوں، یونیفارم اور سٹیشنری کی جبری فروخت پر پابندی عائد کی جائے، سکولوں کی درجہ بندی کی جائے اور معیار کے مطابق ان کی جانچ کی جائے، پرائیویٹ سکولوں پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے ایک خودمختار ادارہ قائم کیا جائے۔

اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں تو نجی تعلیمی ادارے حقیقی معنوں میں تعلیمی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، بصورتِ دیگر یہ محض کاروباری مراکز میں تبدیل ہو جائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button