اسسٹنٹ کمشنر خپلو کے اقدامات: اصلاحات یا آمریت؟

خپلو، جو ضلع گانچھے کا ہیڈکوارٹر ہے، میں چند ماہ قبل احسان الحق بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا ان کی آمد کے بعد سے انتظامی امور میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ تجاوزات کے خلاف سخت آپریشن، سرکاری نرخ ناموں کا نفاذ، بازار کی مستقل نگرانی، اور ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔ عوامی حلقوں میں ان اصلاحاتی اقدامات کو سراہا جا رہا ہے، تاہم کچھ اقدامات پر تحفظات بھی موجود ہیں، خاص طور پر اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی کا معاملہ جو بحث کا موضوع بن چکا ہے۔
خپلو شہر میں تجاوزات ایک دیرینہ مسئلہ تھا، جو نہ صرف شہریوں کے لیے مشکلات کا سبب بنتا تھا بلکہ بازار میں بدانتظامی اور ٹریفک جام کی بڑی وجہ بھی تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر احسان الحق نے اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا، جس میں غیر قانونی تعمیرات اور سڑکوں پر تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔ عوامی حلقوں نے اس اقدام کو سراہا کیونکہ اس سے بازار میں راستے کھل گئے اور شہر کی خوبصورتی بحال ہوئی۔ تاہم، بعض دکانداروں اور مقامی افراد نے شکایت کی کہ کارروائی بغیر نوٹس کے عمل میں لائی گئی، اور کچھ ایسے افراد بھی متاثر ہوئے جن کی تعمیرات قانونی تھیں۔
عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر نے سرکاری نرخ نامے کا نفاذ یقینی بنایا اور ہر دوسرے روز بازار کا دورہ کر کے قیمتوں کی نگرانی کی۔ اس اقدام کے نتیجے میں کئی دکانداروں کو جرمانے کیے گئے اور مصنوعی مہنگائی کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کی گئی۔ عوامی سطح پر اس اقدام کو سراہا گیا کیونکہ اس سے گراں فروشی پر قابو پایا جا سکا۔ تاہم، کچھ تاجروں نے اعتراض کیا کہ قیمتوں کو یکدم کم کرنے کا دباؤ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب ان کا سامان مہنگے داموں خریدا گیا ہو۔
خپلو بازار کی سڑکیں تنگ ہیں اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کے باعث ٹریفک جام روز کا معمول بن چکا تھا۔ ضلعی انتظامیہ نے ایک نیا ٹریفک پلان متعارف کرایا اور اس پر اسسٹنٹ کمشنر نے سختی سے عمل درآمد کروایا۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے واضح ہدایات دی گئیں اور ٹریفک پولیس کو مزید متحرک کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بازار میں ٹریفک کی روانی میں بہتری آئی اور پیدل چلنے والوں کے لیے آسانی پیدا ہوئی۔ تاہم، کچھ تاجروں کو خدشہ ہے کہ اس ٹریفک پلان سے ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑ رہا ہے
تاجروں اور عوامی حلقوں کی جانب سے انتظامیہ، خصوصاً اسسٹنٹ کمشنر خپلو پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ بنیادی سہولیات کے فقدان کے باوجود غیر ضروری اقدامات پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ بازار میں نہ تو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے، نہ عوام کے لیے کوئی پبلک واش روم موجود ہے۔ رات کو بازار میں چوکیدار کی عدم موجودگی اور ناقص بجلی کے نظام سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے انتظامیہ دیگر معاملات پر سختی کر رہی ہے، جو ان کی ترجیحات پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔ اگر بازار میں بنیادی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو عوامی احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
اصلاحات کی راہ میں سب سے زیادہ متنازع پہلو اظہارِ رائے پر پابندی ہے۔ ذرائع کے مطابق، اسسٹنٹ کمشنر خپلو نے سوشل میڈیا پر انتظامیہ یا ان پر تنقید کرنے والے متعدد افراد کو طلب کر کے زبردستی اسٹامپ پیپر پر معافی نامہ لکھوایا ہے۔
پچھلے دنوں انجمن تاجران خپلو کے ایک سابق عہدیدار نے انجمن کے واٹس ایپ گروپ میں انتظامیہ کے سخت رویے کے خلاف احتجاج کی تجویز دی تھی۔ اس پر اسسٹنٹ کمشنر احسان الحق نے خود انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر تھانے پہنچایا، جہاں انہیں جوڈیشل کرنے کی دھمکی دی گئی۔ بعد ازاں، ان سے اقرارِ جرم کروا کر اسٹامپ پیپر پر معافی نامہ لکھوایا گیا اور پھر رہا کر دیا گیا۔ اس واقعے کے خلاف انجمن تاجران نے کئی گھنٹوں کے لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی، سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کیا اور اس رویے کی مذمت کی۔
اسسٹنٹ کمشنر احسان الحق کے اقدامات نے خپلو شہر میں کئی مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، لیکن ان کے طرز عمل پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عوامی حلقے یہ پوچھ رہے ہیں کہ اگر اصلاحات کے نام پر آزادیِ اظہار کو دبایا جائے گا تو کیا یہ ایک نئی طرح کی آمریت نہیں ہوگی؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے اور ایسا متوازن لائحہ عمل اختیار کرے جس سے اصلاحات بھی جاری رہیں اور عوام کی بنیادی آزادیوں کا بھی تحفظ ہو۔
اسسٹنٹ کمشنر احسان الحق کے اقدامات اصلاحات کے زمرے میں آتے ہیں، جن سے عوام کو کئی فوائد حاصل ہوئے ہیں، لیکن آزادیِ اظہار پر قدغن اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ان کے مثبت اقدامات پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ کامیاب حکمرانی وہی ہوتی ہے جہاں اصلاحات اور عوامی حقوق میں توازن برقرار رکھا جائے۔ اگر انتظامیہ اپنی پالیسیوں میں عوامی مشاورت کو شامل کرے، بنیادی مسائل کو حل کرے اور تنقید کو اصلاح کے لیے استعمال کرے تو یہ اصلاحاتی مہم زیادہ موثر اور دیرپا ثابت ہو سکتی ہے۔