کالمز

بلتستان میں بدھ مت کی واپسی: تاریخ، روایت اور نئی بحث

سرور حسین سکندر
بلتستان کی حسین وادیوں میں ایک نئی لیکن درحقیقت پرانی داستان دوبارہ جنم لے رہی ہے ایک ایسا مذہب جو تقریباً پانچ سے چھ صدیوں قبل یہاں سے رخصت ہوا تھا آج ایک بار پھر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے سوشل میڈیا پر اس موضوع پر بحث چھڑی ہوئی ہے کچھ لوگ خوش ہیں کچھ ناخوش، اور کچھ حیران مگر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی جڑیں ماضی کی دھول میں چھپے اس سنہرے دور میں پیوست ہیں جب بلتستان بدھ مت کا ایک عظیم مرکز ہوا کرتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ تبت کے بعد بلتستان بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے سب سے اہم مذہبی مقام مانا جاتا تھا قدیم کتب اور تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بدھ مت کے بڑے بڑے مذہبی تعلیمی ادارے موجود تھے دنیا بھر سے طلباء یہاں آ کر مذہبی تعلیم حاصل کرتے تھے خاص طور پر داریل ویلی میں ایسی کئی جامعات تھیں جو بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز ہوا کرتی تھیں
لیکن تقریباً سات سو سال قبل جب اسلام نے ان علاقوں میں قدم جمائے تو بدھ مت آہستہ آہستہ پس منظر میں چلا گیا اس کے باوجود بلتستان کے کئی مقامات پر آج بھی بدھ مت کے آثار موجود ہیں پہاڑوں پر تراشے گئے بدھ مت کے مجسمے چٹانوں پر کندہ کی گئی تصویریں اور عبادات کی مخصوص جگہیں اب بھی موجود ہیں جو اس عظیم ماضی کی گواہی دیتی ہیں
کوریا اور ملائیشا سے آئے بدھ مت کے پیروکاروں نے اس وقت ایک بار پھر سب کی توجہ حاصل کی جب وہ سکردو کے ان ہی تاریخی مقامات پر بدھ مت کی عبادات کرتے دکھائی دیے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور تبصروں کا ایک طوفان برپا ہو گیا کچھ لوگوں نے اسے برداشت کا مظہر قرار دیا تو کچھ نے اسے آباؤ اجداد کے مذہب کی واپسی کا عنوان دیا دوسری طرف مذہبی طبقات کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی دیکھنے میں آیا
یہ ایک نازک موضوع ہے مذہبی جذبات کا احترام اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ایسے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی ورثے کو محفوظ کر کے سیاحت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اگر بلتستان میں بدھ مت کے آثار کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے، اور پیروکاروں کو محفوظ ماحول میں اپنے عقائد پر عمل کرنے دیا جائے، تو اس سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ مقامی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا
آخر میں ہم جیسے لوگ جو مذہب سے زیادہ انسانیت، امن اور ترقی پر یقین رکھتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی سرگرمیاں علاقے کے لیے باعثِ رحمت ہیں نہ کہ باعثِ فتنہ اگر دنیا بھر کے لوگ بلتستان آ کر اس کی تاریخ، ثقافت اور خوبصورتی کو سراہیں تو فائدہ بلا شبہ پاکستان اور بلتستان کے باسیوں کو ہی ہو گا

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button