کالمز

پہاڑوں میں چھپا خزانہ اور محرومیوں کا شکار گلگت بلتستان

گلگت بلتستان، پاکستان کے شمال میں واقع وہ حسین وادی ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی، فلک بوس پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور برف پوش پہاڑوں کے باعث دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ خطہ جہاں سیاحوں کے لئے جنت ہے، وہیں معدنی وسائل سے بھرپور خزانہ بھی ہے جو آج تک مکمل طور پر دریافت نہیں کیا جا سکا۔

مرحوم پروفیسر کمال الہامی نے گلگت بلتستان کی حیثیت کو نہایت دلنشیں انداز میں یوں بیان کیا:
پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور بیچ میں ہم ہیں
مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
یہ مصرع اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے پہاڑ صرف خوبصورتی کا مظہر نہیں بلکہ ان کے سینے میں قیمتی خزانے پوشیدہ ہیں۔

گلگت بلتستان میں قیمتی پتھروں، سونا، تانبا، یورینیم اور دیگر نایاب معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ حالیہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ گلگت بلتستان، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پہاڑوں میں چھپے ان خزانے کو بروئے کار لا کر پاکستان کو آئی ایم ایف جیسے قرض خواہوں سے نجات دلائی جائے گی۔ یہ بلاشبہ معیشت کی بحالی کے لئے ایک اہم قدم ہے، لیکن اس سے پہلے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان وسائل سے فائدہ اٹھانے سے پہلے گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا آئینی حق دیا جائے گا؟

یہ خطہ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو (8611 میٹر) واقع ہے، جو پاکستان کی شناخت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ننگا پربت (8126 میٹر) جیسا خطرناک اور خوبصورت پہاڑ، راکاپوشی، مشہ بروم، گشہ برم سمیت دیگر بلند چوٹیاں اس خطے کو کوہ پیماؤں اور محققین کے لئے جاذب نظر بناتی ہیں۔

یہاں موجود سیاچن گلیشیئر دنیا کا بلند ترین جنگی محاذ ہے دریائے سندھ کی شروعات بھی یہی سے ہوتی ہے، جو پورے پاکستان کی زراعت اور پانی کی ضروریات کا انحصار ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا گیٹ وے بھی یہی خطہ ہے، جہاں سے گزرنے والی گاڑیاں ملک بھر میں اشیاء پہنچاتی ہیں مگر یہاں کے باسیوں کے لئے لیے صرف دھواں اور گرد چھوڑ جاتی ہیں۔

اس قدر اسٹریٹجک اہمیت، قدرتی وسائل اور جغرافیائی حیثیت رکھنے کے باوجود گلگت بلتستان آج بھی آئینی و سیاسی محرومی کا شکار ہے۔ یہاں کے عوام کو نہ قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہے، نہ سینیٹ میں آواز، نہ ہی پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کرنے کا اختیار۔ یہ خطہ تاحال ایک صدارتی آرڈر کے تحت چلایا جا رہا ہے، جو جمہوری تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔

یہ محرومیاں صرف آئینی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی پہلوؤں میں بھی جھلکتی ہیں۔ کے ٹو، ننگا پربت اور دیگر پہاڑوں سے جڑی سیاحت اور تحقیق کا کوئی مالی فائدہ مقامی آبادی کو نہیں دیا جاتا۔ دریائے سندھ یہاں سے نکلتا ہے مگر رائیلٹی دوسرے صوبے حاصل کرتے ہیں۔ سی پیک کے ٹرک اس سرزمین سے گزرتے ہیں، لیکن یہاں کے نوجوانوں کے لئے نہ روزگار ہے، نہ انفراسٹرکچر اور نہ ہی صحت و تعلیم کی معیاری سہولیات۔

اس تمام صورت حال میں یہاں کے باسیوں کو بجا طور پر یہ خدشہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے یہاں سے معدنیات نکالنا شروع کیں تو ماضی کی طرح اس بار بھی گلگت بلتستان کے حصے میں صرف خاموشی، محرومی اور سوالات آئیں گے۔

اگر واقعی وفاق پاکستان کو مستحکم بنانا چاہتا ہے تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی شناخت دی جائے، انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی جائے، انہیں پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کرنے کا حق دیا جائے، اور وسائل کے استعمال سے پہلے ان کے لئے پالیسی میں مشاورت اور شراکت کو لازم بنایا جائے۔

گلگت بلتستان صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی پیشانی، پہچان اور فخر ہے۔ یہ خطہ قربانی، وفاداری اور استقامت کا استعارہ ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ریاست یہاں کے لوگوں کی محبت کا جواب آئینی حق، معاشی انصاف اور سیاسی شراکت سے دے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button