کالمز

تعلیم کا مستقبل: پاکستان میں ایک نئی سوچ اور آغا خان یونیورسٹی کی کاوشیں

نجف علی شرقی

تعلیم ہر معاشرے کی ترقی کا سب سے اہم زینہ ہے۔ یہ نہ صرف بچوں کو علم دیتی ہے بلکہ ان کی سوچ کو نئی جہت عطا کرتی ہے اور انہیں بہتر زندگی جینے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ آج ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہے۔ ہر روز نئی ایجادات اور نئے مسائل سامنے آتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو بچوں کو نوکریوں تک محدود نہ رکھے، بلکہ انہیں معاشرے کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت دے۔ سادہ الفاظ میں، تعلیم وہ عمل ہے جو بچوں کو تنقیدی سوچ سکھاتا ہے، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے، اور انہیں معاشرے کا ذمہ دار شہری بناتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ اسکول میں ریاضی پڑھتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس علم کو روزمرہ زندگی میں کیسے استعمال کرنا ہے، جیسے کہ گھر کا بجٹ بنانا، تو یہ تعلیم نامکمل ہے۔ ہمیں ایسی تعلیم چاہیے جو بچوں کو خود مختار بنائے اور انہیں اپنے معاشرے کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب دے۔

اس کے بعد، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کن چیلنجوں سے دوچار ہے۔ پاکستان میں تعلیمی عدم مساوات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ بچوں کو نجی اسکولوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم ملتی ہے، جہاں جدید سہولیات اور تربیت یافتہ اساتذہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، سرکاری اسکولوں کے بچوں کو اکثر بنیادی چیزیں، جیسے اچھے استاد، کتابیں، یا صاف کمرے تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ، ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو رٹا لگانے پر زور دیتا ہے، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیت دب جاتی ہے۔ نتیجتاً، بچے نئی چیزیں سوچنے یا مسائل حل کرنے کے بجائے صرف امتحانات پاس کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو بچوں کو صرف معلومات دینے تک محدود نہ ہو، بلکہ ان کی زندگیوں کو بدلے، انہیں خود پر بھروسہ کرنے والا بنائے، اور انہیں معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنائے۔

اس تناظر میں، ترقی کے ایک نئے تصور پر بات کرنا اہم ہے۔ ہم اکثر ترقی کو بڑی عمارات، چمکتی سڑکوں، یا زیادہ پیسہ کمانے سے جوڑتے ہیں۔ لیکن ترقی کا اصل مطلب ہے کہ ہر آدمی کو آزادی ملے—پیسہ کمانے کی، اپنی رائے دینے کی، اور معاشرے میں عزت سے جینے کی۔ مثال کے طور پر، اگر ایک ملک میں بہت ساری بلند عمارتیں ہیں لیکن اسکول، ہسپتال، یا صاف پانی عام لوگوں کے لیے نہیں، تو یہ ترقی نہیں۔ تعلیم اس نئی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ بچوں کو ایسی صلاحیتیں دیتی ہے کہ وہ اپنی زندگی خود سنوار سکیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے، تو ہمیں سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر کرنا ہوگا۔ اس سے ہر بچے کو، چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے ہو، برابر مواقع مل سکیں گے۔ تعلیم وہ پل ہے جو غربت اور خوشحالی کے درمیان فاصلہ کم کر سکتا ہے۔

اسی سلسلے میں، آغا خان یونیورسٹی نے گلگت بلتستان کے سرکاری اسکولوں میں ایک شاندار اقدام اٹھایا ہے۔ اس نے پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کے لیے طالب علم کی تعلیمی کامیابی کا امتحان (SLAT) شروع کیا ہے۔ یہ امتحان بچوں کی بنیادی صلاحیتوں—جیسے پڑھنا، لکھنا، اور ریاضی—کو جانچتا ہے۔ اس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ تعلیمی رفقاء (Education Fellows) سرکاری اسکولوں میں پڑھائی کے معیار کو کس حد تک بہتر بنا رہے ہیں۔ اس امتحان کی نمونہ جانچ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں ہو رہی ہے، اور اب یہ ضلع سکردو میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی پروفیشنل ڈیویلپمنٹ سنٹر نارتھ (PDCN) کی ٹیم اس امتحان کا انعقاد کر رہی ہے۔ یہ امتحان دو مراحل میں ہوتا ہے: ابتدائی امتحان سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی موجودہ تعلیمی سطح کیا ہے، اور اختتامی امتحان سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی رفقاء کی مدد سے کتنی بہتری آئی۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ ابتدائی امتحان میں ریاضی میں کم نمبر لیتا ہے لیکن اختتامی امتحان میں اس کے نمبر بڑھ جاتے ہیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ نئے طریقہ ہائے تدریس کامیاب ہیں۔

اس ضمن میں، یہ جاننا ضروری ہے کہ تعلیمی رفقاء (Education Fellows) کون ہیں اور ان کا کردار کیا ہے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جنہیں خاص تربیت دی گئی ہے تاکہ وہ بچوں کو جدید اور دلچسپ طریقوں سے پڑھائیں۔ یہ رٹا لگانے کے بجائے سمجھنے پر زور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ جمع تفریق سیکھ رہا ہے، تو یہ اساتذہ اسے صرف کتاب سے فارمولے نہیں پڑھاتے، بلکہ روزمرہ کی چیزوں سے جوڑتے ہیں، جیسے دکان پر خریداری کرنا یا گھر کا خرچہ نکالنا۔ اس سے بچوں کو پڑھائی آسان اور مزے دار لگتی ہے، اور وہ تیزی سے سیکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، اس امتحان کے نتائج سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ یہ امتحان ابتدائی اور اختتامی نتائج کا موازنہ کرتا ہے۔ اگر نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی رفقاء کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی میں بہتری آئی، تو اس طریقے کو پورے پاکستان میں اپنایا جا سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں، یہ امتحان ہمیں بتائے گا کہ سرکاری اسکولوں کو کیسے بہتر بنانا ہے۔ اس سے نہ صرف بچوں کی تعلیم کا معیار بلند ہوگا، بلکہ معاشرے میں عدم مساوات بھی کم ہوگی۔ تعلیم وہ طاقت ہے جو غریب اور امیر کے درمیان فاصلہ ختم کر سکتی ہے۔ یہ بچوں کو اپنے خواب پورے کرنے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی طاقت دیتی ہے۔

آخر میں، یہ کہنا درست ہوگا کہ تعلیم معاشرے کو بدلنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کا طالب علم کی تعلیمی کامیابی کا امتحان اس سمت میں ایک عظیم قدم ہے۔ یہ منصوبہ سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر بنائے گا اور ہمارے بچوں کو روشن مستقبل کی طرف لے جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس طرح کے اقدامات پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے۔ ہمارا تعلیمی نظام ایسی نسل تیار کرے گا جو نہ صرف خود ترقی کرے، بلکہ اپنے معاشرے کو بھی مضبوط بنائے۔ مصنف کے بارے میں:

نجف علی شرقی گلگت بلتستان میں ایک تجربہ کار ماہر تعلیم اور تدریسی رہنما ہیں۔ ان کے پاس تدریس اور انتظامیہ کا وسیع تجربہ ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلتستان اور ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن، کے آئی یو میں لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ پرنسپل، سائنس ٹیچر، ٹیچر ایجوکیٹر، ٹرینر کے طور پر ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے ٹی ایس ڈی سی، جی بی میں نائب ڈائریکٹر (نگرانی و جائزہ) کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ فی الحال، وہ آغا خان یونیورسٹی میں پروفیشنل ڈیویلپمنٹ ٹیچر (پی ڈی ٹی) اور ضلع سکردو کے لیے تعلیمی رفقاء منصوبے کے فوکل پرسن کے طور پر کام کر رہے ہیں.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button