گلگت بلتستان میں بے چینی اور اضطرابی صورتحال: ذمہ دار کون؟

گلگت بلتستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے خالصہ سرکار کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا تھا کہ اسی دوران گلگت بلتستان کے داخلی دروازے دیامر میں گزشتہ کئی مہینوں سے دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین نے احتجاج شروع کیا، جو تاحال جاری ہے۔ اسی اثنا میں حالیہ دنوں وزیر اعظم پاکستان کے معدنیات سے متعلق بیان کے بعد پورے گلگت بلتستان میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو چکی ہے، جبکہ وکلاء کی ہڑتال کے باعث عوام کے لیے انصاف کے دروازے بھی بند ہو چکے ہیں۔
یہ ایک نہایت تشویشناک صورت حال ہے۔ ایک طرف دیامر کے عوام سراپا احتجاج ہیں، تو دوسری جانب گزشتہ چھ ماہ سے گلگت بلتستان کے وکلاء بھی مسلسل احتجاج کر رہے ہیں اور عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے، جس کے باعث عوام کو انصاف نہیں مل رہا۔ جبکہ حکومتی حلقے خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں، جو کہ غیر ذمہ دارانہ رویے کی علامت ہے۔
اس وقت پورے گلگت بلتستان میں اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے وکلاء برادری کے مطالبات کو جاننا نہایت ضروری ہے تاکہ اس مسئلے کی نوعیت اور اہمیت کو بہتر طور پر اجاگر کیا جا سکے۔
گلگت بلتستان کے وکلاء کے مطالبات:
- سپریم اپیلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں ججز کی تعیناتی
یہ ایک عوامی مطالبہ ہے جس کا براہِ راست تعلق انصاف کی فراہمی سے ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے سپریم اپیلیٹ کورٹ میں ججز کا کورم مکمل نہیں، جس کے باعث ہزاروں مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ وکلاء کی چھ ماہ طویل ہڑتال کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس معاملے پر زیرِ التوا مقدمات کی شنوائی کے بعد سٹے آرڈر ختم کر دیا اور حکومت کو ایک ماہ کے اندر سپریم اپیلیٹ کورٹ میں دو اور چیف کورٹ میں ایک جج کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ تعیناتیاں جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوں تو میرٹ کی بالادستی ممکن ہو سکے گی۔ - وکلاء پروٹیکشن و ویلفیئر ایکٹ کا نفاذ
یہ قانون پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں نافذ العمل ہے۔ گلگت بلتستان میں اس کا نفاذ صرف وزیراعظم کے ایک دستخط کی دوری پر ہے، کیونکہ جی بی کونسل کے ذریعے 200 سے زائد قوانین پہلے ہی اپنائے جا چکے ہیں۔ لہٰذا اس قانونی مطالبے کو فوری پورا کیا جا سکتا ہے۔ - ایڈوکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل کے دفاتر کی علیحدگی
پورے پاکستان اور آزاد کشمیر میں یہ دفاتر الگ الگ فنکشن کرتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں یہ ایک ہی محکمہ کے تحت کام کر رہے ہیں، جو وکلاء کے ساتھ ناانصافی ہے۔ حکومت گلگت بلتستان اس مطالبے کو فوری طور پر پورا کر سکتی ہے، کیونکہ یہ اس کے مینڈیٹ میں شامل ہے۔ - گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز بل پر تحفظات
وکلاء نے اس بل پر اپنی سفارشات وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو پیش کی ہیں، جن پر عمل درآمد سے زمینوں کا تنازع بروقت حل ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر زمین اور معدنیات کے معاملات میں عوامی احتجاج میں شدت آ سکتی ہے۔ - لیبر، کنزیومر اور فیملی کورٹس کا قیام
یہ عدالتیں ملک کے دیگر حصوں میں موجود ہیں، لیکن گلگت بلتستان میں ان کا قیام تاحال عمل میں نہیں آیا۔ ان کا قیام انصاف کی فراہمی کو بہتر بنائے گا۔ - جوڈیشل مجسٹریٹ اور سول جج کے اختیارات کی علیحدگی
پورے ملک میں یہ اختیارات علیحدہ ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بھی ایسا ہی کیا جانا چاہیے تاکہ ججز کا بوجھ کم ہو اور مقدمات کے فیصلے جلد ہو سکیں۔ - وکلاء کے ویلفیئر کے لیے سالانہ گرانٹ
دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی وکلاء کو سالانہ گرانٹ دی جانی چاہیے۔ - وکلاء کو پلاٹس کی فراہمی
سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان نے وکلاء کے حق میں فیصلہ دیا ہے کہ انہیں پلاٹس فراہم کیے جائیں۔ حکومت صحافیوں کے لیے جس طرح خصوصی گرانٹ فراہم کرتی ہے، اسی طرز پر یہ مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے حکومت گزشتہ چھ ماہ میں وکلاء کے ان جائز اور قانونی مطالبات کے حل میں ناکام رہی ہے، جس کے باعث وکلاء کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ اب وکلاء نے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ارجنٹ مقدمات میں بھی کوئی وکیل پیش نہیں ہو رہا، اور اگر کوئی وکیل ہڑتال کی خلاف ورزی کرے تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے اور 1 سے 3 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
وکلاء کی ہڑتال 16 تاریخ تک جاری رہے گی، اور حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے قوی امکان ہے کہ یہ ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔
ادھر دیامر میں “حقوق دو، ڈیم بناؤ” تحریک زور پکڑ چکی ہے اور پورے گلگت بلتستان میں عوامی اضطراب بڑھ رہا ہے۔ وفاقی اور مقامی حکومتیں اس عوامی مسئلے کو حل کرنے میں تاحال ناکام رہی ہیں، جو کہ انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر ہے۔
ملک میں مجموعی طور پر سیاسی بے یقینی اور اضطراب کی فضا قائم ہے۔ ایسے حالات میں گلگت بلتستان جیسے جیو اسٹریٹیجک خطے کے عوام کو نظر انداز کرنا قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے منافی ہوگا۔
گزشتہ 77 سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام قومی حقوق اور شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔ نہ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی گئی اور نہ ہی آزاد کشمیر کی طرز پر این ایف سی ایوارڈ میں حصہ طے کیا گیا ہے۔
لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، وکلاء برادری کے جائز مطالبات تسلیم کریں، اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دے کر امن، انصاف اور ترقی کی راہ ہموار کریں، تاکہ اس خطے میں وہ حالات پیدا نہ ہوں جو اس وقت بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔