گلگت بلتستان سی سی آئی میں نمائندگی سے کیوں محروم ہے؟

مشترکہ مفادات کونسل، جسے کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کہا جاتا ہے، ایک وفاقی آئینی فورم ہے جہاں ہر صوبے کا ایک نمائندہ، یعنی وزیرِ اعلیٰ، اپنے صوبے کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ اس فورم پر صوبوں کے آپس کے تنازعات زیرِ بحث آتے ہیں اور ان کے حل نکالے جاتے ہیں۔ اس اہم فورم میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان دو انتظامی یونٹس کے مسائل پر بات کرنے کے لیے کوئی نمائندہ اجلاس میں شرکت نہیں کرتا۔
سی سی آئی کے حالیہ اجلاس میں دریائے سندھ پر مجوزہ متنازعہ کینال کی تعمیر پر بات ہوئی، اور سندھ کے تحفظات تسلیم کرتے ہوئے اس منصوبے کو منسوخ کر دیا گیا۔ یعنی اس فورم کی وساطت سے صوبہ سندھ کے نمائندے نے اپنے عوام کی خواہشات کا ادراک کرتے ہوئے متنازعہ کینال منصوبہ منسوخ کرانے میں کامیابی حاصل کی، کیونکہ گزشتہ کئی دنوں سے سندھ کے عوام اس منصوبے کے خلاف احتجاجاً سڑکوں پر تھے۔
گلگت بلتستان کا صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ حدود کے تنازعات سمیت کئی تنازعات طویل عرصے سے زیرِ التوا ہیں۔ اگر سی سی آئی میں گلگت بلتستان کی نمائندگی ہوتی تو ان تنازعات کے حل کے علاوہ گلگت بلتستان کے مفادات کا تحفظ بھی ممکن ہو سکتا تھا۔ گلگت بلتستان نہ صرف اس اہم فورم میں نمائندگی سے محروم ہے بلکہ نیشنل فنانس کمیشن جیسے دوسرے اہم فورم میں بھی نمائندگی سے محروم ہے، جہاں صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس اہم فورم میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں پانی اور بھاشا ڈیم کی رائلٹی سمیت گلگت بلتستان سے حاصل ہونے والے دیگر وسائل اور آمدنی کی تقسیم کے فیصلے بھی گلگت بلتستان کی بجائے دیگر صوبوں کے نمائندے مل بیٹھ کر کریں گے۔
مذکورہ بنیادی حقوق سے محرومی کا تعلق گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین نہ ہونے سے ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کے آئین میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ آف پاکستان، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی سے محروم ہے، جس کے باعث وفاق کی سطح پر قانون سازی اور فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہے، جہاں سی سی آئی اور این ایف سی جیسے اہم فورمز پر نمائندگی کا تعین کیا جاتا ہے۔ وفاق میں ہر صوبہ اپنے مفادات اور حقوق کی بات کرتا ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو کون پوچھتا ہے کہ ان کے مسائل کیا ہیں؟
گلگت بلتستان کے سیاستدان اور حکمران باہمی اتفاقِ رائے سے مذکورہ امور پر بات کرنے اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے حل تک اس علاقے کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کے بجائے ہر معاملے میں سطحی سوچ لے کر چلتے ہیں، جس کی وجہ سے ان اہم امور پر نہ تو بات ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پیش رفت ممکن ہو پاتی ہے۔