اصل لڑائی

سخاوت حسین
چھوٹے سے بچے نے لکڑی کی بندوق اٹھائی۔ برفیلے پانی پر احتیاط سے آگے بڑھنے لگا۔ شدید ٹھنڈ کا موسم تھا۔ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر چکا تھا۔ سامنے ندی کا پانی بالکل برف کی صورت اختیار کر چکا تھا یہاں تک کہ پانی پر کھیلنے والے پھسل بھی رہے تھے۔
"ادھر آؤ۔”
ایک بچے نے دوسرے کو آواز دی۔
وہ رینگتا رینگتا اس کے پاس چلا گیا۔
"چلو کھیلتے ہیں۔”
دوسرے بچے نے کہا۔
"کب سے ہم کھیل ہی تو رہے ہیں۔”
پہلا بچہ ہنستے ہوئے کہنے لگا۔
تبھی دونوں سوچنے لگے۔ کافی دیر بعد ان کے دماغ میں ایک نئے کھیل نے دستک دی۔
"دیکھو ابرار،” پہلا بچہ خوشی کے عالم میں گویا ہوا، "ہم اب تک ہر قسم کا کھیل کھیل چکے ہیں۔ ہم لڑے بھی ہیں۔ ہم نے لکا چھپی جیسے کھیل بھی کھیلے۔ مٹی والے کھلونوں سے بھی اکتا گئے ہیں۔ اب ہم پانی پر کھیلتے ہیں۔ بلکہ برف پر۔۔۔ ویسے بھی یہ کھیل بہت مزے دار ہوگا۔”
دوسرا بچہ یہ سن کر خوشی سے جھومنے لگا۔
"ٹھیک ہے کاشف! لیکن کیا ہم برف پر یہ کھیل پائیں گے؟ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔”
دوسرے بچے نے کھیل کی تفصیل سن کر پریشانی کے عالم میں کہا۔
"کوئی بات نہیں۔ سامنے درخت ہے نا، اس کی ٹہنیوں کو توڑ کر بناتے ہیں۔”
دونوں بچے خوشی خوشی برف نما پانی سے باہر نکلے اور سامنے درخت کی چھوٹی ٹہنی کو توڑا اور اگلے لمحے اسے بندوق کی شکل دی۔
"تم کیا بنو گے؟”
ابرار نے کاشف سے سوال کیا۔
"میں فوجی بنوں گا، اور تم۔۔۔”
کاشف نے جواب دیا۔
"فوجی تو میں بھی بنوں گا۔ پھر دو فوجی کیسے لڑیں گے اور آپس میں کیوں لڑیں گے؟ فوجی تو نہیں لڑتے۔”
ابرار نے سوچتے ہوئے سوال کیا۔
"ہاں یہ بات تو ہے۔ پھر ایسا کرتے ہیں،” کاشف نے کافی دیر سوچا اور گویا ہوا، "تم دوسرے ملک کے فوجی بننا اور میں کسی اور ملک کا فوجی بن جاؤں گا۔ اب تو ہم لڑ سکتے ہیں نا۔۔۔”
اس تجویز پر دونوں بچے خوش ہو گئے اور کچھ دیر بعد دوبارہ کھیلنے پہنچ گئے۔
"لیکن ابرار! ہم کس بات پر لڑیں گے؟”
اب کہ کاشف نے پھر سے سوچتے ہوئے کہا، جبکہ دونوں پھر سے پریشان ہو گئے۔
"ہاں کاشف، ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ہمارے پاس کوئی وجہ بھی ہونی چاہیے۔ تم نے کبھی میرا ٹفن بھی چوری نہیں کیا۔ میری کتابیں بھی نہیں پھاڑیں اور کبھی مجھے آتے جاتے دھکا بھی نہیں دیا۔ پھر ہم کس بات پر لڑیں؟ لڑنے کے لیے کوئی وجہ ہونی چاہیے نا۔۔۔”
دونوں ہنسنے لگے۔
"کیا ہمیں اب کوئی وجہ بھی تلاش کرنی ہوگی تاکہ ہم لڑیں؟”
تبھی دوسرے بچوں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
"ابرار، تم نے میرے کپڑوں پر سیاہی گرائی تھی نا۔۔۔ لیکن وہ تو غلطی سے گری تھی اور تم نے سوری بھی کی تھی۔ یاد آیا، پرسوں تم نے مجھے دیکھ کر منہ چڑایا تھا اور سوری بھی نہیں کیا تھا۔ کیا ہم اس بات پر لڑ لیں؟”
پہلے بچے کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔
"ہاں، لیکن یہ تو تمھارے لڑنے کی وجہ ہے۔ تم نے میرے ساتھ کیا کیا تھا؟ میں کیوں لڑوں؟”
کاشف کی بات سن کر اب دونوں پھر سے حیرت میں ڈوب گئے۔
تبھی کاشف پھر سے بولا،
"یاد ہے جب مجھے ٹیچر نے ڈانٹا تھا، تم ہنسے تھے۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ لیکن کیا ہم اس بات پر لڑیں گے؟”
اس نے تذبذب کے عالم میں سوال کیا۔
"ہاں! چلو، ہم دونوں کے پاس کوئی تو وجہ ہے نا! اب ہم لڑیں گے۔ لیکن ہم لڑیں گے کہاں، کیا یہاں۔۔۔”
اس نے پانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، جو کہ مکمل برف بن چکا تھا۔
"ہاں، تم بندوق نکالو، میں بھی نکالتا ہوں۔ وہاں بڑے بھی تو لڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پانی پر سب سے بہتر لڑائی ہوتی ہے اور پانی پر ہی صحیح لڑائی ہوتی ہے اور اس کا مزہ بھی بہت آتا ہے۔”
یہ کہتے ہوئے دونوں بچے مسکرائے اور لکڑی کی بندوق نکال کر لڑنے لگے۔