کالمز

ملکہ جوار خاتون: تاریخ گلگت کی ایک ناقابل فراموش حکمران

گلگت بلتستان کے تاریخ ساز حکمرانوں میں شری بدت، علی شیر خان انچن، گوہر امان، عذر خان، صفدر خان، کے بعد اگر کسی حکمران کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں تو ان میں ایک بہترین خاتون حکمران ملکہ جوار کا نام سرفرست ہے۔
ملکہ جوار خاتون کو مقامی لوگ جنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ امن اور ترقی کی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور ان کی خدمات کو پورے دل سے سراہتے ہیں ۔ ملکہ جوار گلگت بلتستان میں دادی جواری کے نام سے مشہور ہیں۔
انہوں نے 17ویں صدی عیسوی میں گلگت پر حکومت کی، ان کی فہم و فراست، دانشمندی اور شجاعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اندرونی سازشوں کا مقابلہ کیا بلکہ گلگت میں امن بھی قائم کیا اور بہترین اصلاحات کئے۔ انہوں نے شاہی ریاست نگر سے بھی دوستانہ تعلقات قائم کئے جس سے گلگت میں امن قائم ہوا۔
ملکہ جوار کا تعلق خاندان تراخان سے تھا ان کا دور حکومت گلگت کا ایک سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ تاج برطانیہ کے دور حکومت میں گلگت میں تعینات برٹش پولیٹیکل ایجنٹ جان بڈولف اپنی کتاب قراقرم کے قبائل میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت کے لوک گیت میں ملکہ جواری کا ذکر ایک پسندیدہ ملکہ کے طور پر کیا جاتا ہے "۔
ملکہ جواری کے بارے میں بہت سی نظمیں اور گیت مشہور ہیں، جنہیں آج بھی گلگت بلتستان کی بزرگ خواتین محفلوں میں سناتی ہیں۔
ملکہ جوار کی پہلی شادی سکردو کے ایک حکمران سے ہوئی تھی جن سے ان کی کوئی اولاد نرینہ پیدا نہیں ہوئی وہ ان کی بیوہ تھی ۔

بقول شیرباز علی برچہ” ملکہ جوار خاتون کے والد خاقان میرزا گلگت کا ایک اہم حکمران تھے اور وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی۔اس وجہ سے مقامی لوگ جوار خاتون کو میرزا جواری بھی کہتے ہیں،
شوہر کے وفات کے بعد جب ملکہ جوار خاتون سکردو سے گلگت واپس ائی تو اس وقت گلگت میں تراخان حکمران نہ صرف زوال پذیر تھے بلکہ اس وقت رونو رشو نامی ایک شخص گلگت کا حکمران بن گیا تھا مگر اس کا تعلق حکمران خاندان سے تعلق نہیں تھا اس لئے مقامی لوگوں نے ایک غیر حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے شخص کے مقابلے میں خاندان تراخان کی خاتون کو گلگت کا حکمران بنانے کو ترجیح دی۔ اور ملکہ جوار خاتون کی دوسری شادی شاہی ریاست نگر کے پردوش نامی ایک عام آدمی کے ساتھ کرائی گئی تھی تاکہ تخت گلگت کے لئے ایک وارث پیدا ہو”۔

بقول بڈولف ان کی دوسری شادی شاہی ریاست نگر کے پردوش نامی ایک عام آدمی کے ساتھ اس لئے کرائی گئی تھی تاکہ تخت گلگت کے لئے ایک وارث پیدا ہو اس طرح ملکہ جوار خاتون کے بطن سے حبی خان نامی شہزادہ پیدا ہوا اور تخت گلگت کے لئے ایک ولی عہد مل گیا۔ جب حبّی خان کی عمر تقریباً بارہ برس ہوئی تو پردوش خان کو کھلے عام یہ بتایا گیا کہ جواری نے صرف تراخان خاندان کا تخت بچانے کے لیے ان سے شادی کی تھی، لہٰذا ان کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ جتنی جلدی ہو نگر واپس چلے جائیں اسی میں اس کی عافیت ہے، مخدوش صورت حال کو دیکھ کر پردوش نے انہیں چھوڑ دیا اور واپس چلے گئے ۔ جب کہ ملکہ جواری نے اقتدار اپنے بیٹے حبی خان کو سونپ دیا۔
جبئ خان سے گلگت کا آخری حکمران سلیمان خان پیدا ہوا جو عام طور پر گوریتھم خان کے نام سے جانا جاتا تھا، اس نے گلگت پر پچاس سال تک حکومت کی اور بلا آخر 1803 میں ان کا قتل کیا گیا۔

مولوی حشمت اللہ خان لکھنوی جو 1894 میں برٹش ایجنٹ گلگت کے ایک رکن کے طور پر گلگت ایجنسی میں تعینات ہوئے اور گلگت ایجنسی کے لوگوں سے قریبی تعلقات پیدا کئے تھے انہوں نے اپنی کتاب بعنوان” مختصر تاریخ جموں وکشمیر ” میں لکھا ہے کہ ملکہ جوار نے حکومت اپنے بیٹے حبی خان کے سپرد کیا تھا مگر وہ صرف نام کا راجہ تھا اصلی حکمران جواری تھی جس نے حکومت اپنے ہاتھ میں رکھی ۔ اسی دوران گلگت میں اقتدار کے لئے ایک فساد برپا ہوا اور حبّی خان کا قتل ہوا جس کا جواری کو بہت زیادہ غم ہوا اور اس صدمے سے رو رو کر اس نے اپنی بصارت زائل کی ،بیٹے کے قتل کے بعد گلگت پر حکومت دادی جواری کے پوتے گوریتھم کو ملی مگر اپنی حیات تک حکومت کا کام جواری ہی چلاتی رہی۔
اس لئے گلگت جیسے پدرسری معاشرے میں انہیں ایک بہترین ریفرمر خاتون حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
ان کے دور حکومت میں تعمیر شدہ گلگت کا آبپاشی کا نظام نہایت عمدہ تھا جس میں پینے اور آبپاشی کے لیے دو نہریں شامل تھیں۔ ملکہ جوار خاتون کی طرف سے عوام گلگت کے لئے یہ ایک انمول کارنامہ تصور کیا جاتا ہے جس سے چند برس قبل تک گلگت کے لوگ فیضیاب ہوتے رہے ۔
بقول مولوی حشمت اللہ خان 1876 میں کپتان بڈلف منجانب سرکار انگلشیہ گلگت میں افسر اسپسشل ڈیوٹی بغرض مشن ہنزہ وغیرہ مقرر کیا گیا تو اس کے رہنے کے لیے گلگت کی نہر کلاں کے اوپر ایک عالیشان کوٹھی تیار کی گئی تھی” بعد بعدازاں اس بنگلہ کا زکر بڈلف نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے اور شاندار باغ کا ذکر کیا ہے مگر وہ یہ لکھنا بھول گئے کہ گلگت کےیہ سرسبز شاداب باغات دادی جواری کے مرہون منت ہیں۔

احمد حسن دانی کی کتاب ” ہسٹری آف ناردرن ایریاز اف پاکستان ” میں جواری کے بارے میں دو روایات بیان کی گئی ہیں جو انہوں نے شاہ رئیس خان سے نقل کی ہیں، جن میں سے ایک روایت کے مطابق ملکہ جوار خاتون دو بار حکمران بنیں۔ پہلی روایت کے مطابق جب جواری اسکردو میں تھیں، تو وزیر راشو گلگت میں نگران حکمران تھے۔ انہوں نے جواری کو واپس بلا کر ملکہ بنایا اور خود نائب سلطنت کے طور پر حکومت چلاتے رہے۔ مگر جواری نے جب وزیر راشو کے اصل ارادے بھانپ لیے تو اس نے خود جاکر لوگوں سے رابطہ کیا تو ان کے مصائب کا اس سے پتہ چلا تو وہ بگروٹ چلی گئی وہاں وہ قلعے سنیکر میں تھی اسی دوران اس کا محاصرہ کیا گیا۔اور وزیر راشو وہاں آکر اس سے اپنے ساتھ شادی کی پیشکش کی جس سے دادی جواری نے سختی سے ٹھکرا دیا اور اس کی خوب سرزنش کیا اور دونوں کے درمیان جھڑپ میں وزیر راشو مارا گیا۔ اس کے بعد جواری نے مکمل طور پر حکومت سنبھال لی اس طرح وزیر راشو کا گلگت کا قانونی حکمران بننے کا خواب اپنے انجام کو پہنچا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ملکہ جواری نے کئی سڑکیں اور قدم نالہ جو جٹیال نالے سے شروع ہوکر قلعہ فردوسیہ تک تھا جس سے موضع گلچنوٹ اور نگرل کا علاقہ سیراب کرتا تھا اس کو مذید کشادہ کیا اس کام کے لئے داریل کے لوگوں کی مدد لی گئی جس سے ایک وسیع علاقے کو سیراب کرنے لئے پانی ملا۔ اس کام کے بدلے داریل کے خریلی جسٹررو کو انعام کے طور پر کھنبری چراگاہ کی زمین عطا کیا۔

روایات کے مطابق دادی جواری مردوں کی طرح لباس پہنتی تھیں، گھوڑے پر سوار ہوتی تھیں اور اپنے نام سے احکامات جاری کرتی تھیں اور جب ّحبی خان بالغ ہوئے تو دادی جواری نے حکومت اسے سونپ دیا، حبّی خان کے تین بیٹے تھے۔ ان میں ہر ایک کو یاسین، نگر اور سکردو کی طرف سے حمایت حاصل تھی، مگر آپس کی جنگوں میں تینوں مارے گئے، اور حبّی خان خود بھی قتل ہوا، جس پر ملکہ جواری نے بہت رنجیدہ ہو کر ایک گیت گایا۔
شنا زبان کا یہ گیت ڈاکٹر لیٹنر نے اپنی کتاب دردستان میں ریکارڈ کیا ہے لیکن انہوں نے مختلف روایت بیان کی ہے۔
بقول ڈاکٹر لیٹنر ایک دور تھا جب مغلوں نے گلگت کے قلعے کا محاصرہ کیا تھا اس وقت گلگت میں جواری نام کی ایک خاتون حکومت کرتی تھی۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے محاصرہ میں دیکھا تو شنا زبان میں یہ گیت گایا۔
Mirzey Jawari,
Shakerey Pial ; daru
Dunya ,sang tareye
Abi khann djalo
Lamayi tey ! Latshar taro nikato.
بقول لیٹنر اس گیت کا ترجمہ گلگت میں ان کے ایک خبر رساں نے اس طرح کی۔ نوٹ۔ قارئین کی آسانی کے لئے اس گیت کی انگریزی ترجمہ کا اردو ترجمہ اس طرح ہے۔

” یہ میری بدقسمتی ہے کہ میرا اعلی مرتبہ میرے لئے مصائب کا سبب بنا ،
اے میرے پیارے بیٹے میں تمہارے لئے اپنے آپ کو قربان کرسکتی ہوں مگر میں نے تمہیں قربان کر دیا۔
تمہارے لئے حکمرانی محفوظ کرنے کی بجائے تمہاری موت پر ہی صبح کا ستارہ طلوع ہوا
میں بہادر بادشاہ خاقان میرزا کی بیٹی جوار واحد عورت ہوں جو مسرتوں کی پیالہ ہوں۔
اس لئے وہ ہر ایک کے لیے مہک ہے جو اس پیالہ سے پینا چاہتا ہے۔
اے جوار خاتون اے میری میٹھی مٹی تم نے باہر کی دنیا کو منور کیا۔
اے میرے فرزند تمہیں دشمنوں نے گرفتار کرکے قتل کیا ۔ اور صبح کا ستارہ، میرے صبح کا ستارہ طلوع ہوا ۔

کہا جاتا ہے گلگت کے رہائشیوں نے ان نہروں کی تعمیر میں ملکہ کی مدد سے صاف انکار کیا تھا، کہ ان کے لئے نئی نہروں کی تعمیر کی ضرورت نہیں اس لئے ملکہ جوار خاتون نے داریل (جو آجکل دیامر ضلع کہلاتا ہے) کے لوگوں سے مدد لی اس وقت داریل بھی گلگت کا حصہ تھا۔
جب انہوں نے یہ منصوبہ مکمل کیا تو ان کی محنت کے بدلے ملکہ نے انہیں دیامر کے علاقے کھنبری میں اراضیات عنایت کی۔
ملکہ جواری کے دور حکومت میں تعمیر شدہ گلگت کی اجینی دلجہ اور خریئنی دلجہ نامی دو بڑی نہریں ہیں جو آج بھی گلگت کو پانی فراہم کر رہی ہیں۔ یہ نہریں دادی جواری کا ایک سنہری دور کی نشانی ہیں ۔ ان کا مقصد اُس وقت کے بستیوں کو آبپاشی کی سہولت فراہم کرنا تھا، جن میں بُرمس، جٹیال، نپور اور دیگر علاقے شامل تھے۔

ملکہ جواری نے نہ صرف آبپاشی نظام اور دفاعی منصوبے بنائے بلکہ ایک مضبوط ٹیکس نظام بھی قائم کیا۔ "چِلو” ایک خاص ٹیکس تھا جو انہوں نے برمس، کھومر اور نپورہ کے دیہاتوں پر لگایا تھا جو نئی نہروں سے سیراب ہوتے تھے۔ اس ٹیکس میں ان گھروں کی ایک گائے کا سارا دودھ اور مکھن گانونی سے چِلی تہوار تک، یعنی مئی کے وسط سے اکتوبر کے آخر تک، ریاست کو دینا ہوتا تھا۔

نپورہ سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان مظفر الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ دادی جواری کے زمانے میں سردار کول نام سے ایک نہر نکالی گئی تھی جس کے ذریعے کارگاہ نالہ سے پانی لاکر کھر اور برمس کے نچلے علاقہ جات کو سیراب کیا ان کا کہنا ہے کہ ان کے بزرگوں کے بقول گلگت میں موجود جنرل ہاوس کے پاس ملکہ جواری کا محل تھا۔

گلگت کے مقامی تاریخ دان شیر باز کے بقول ” انہیں یقین ہے کہ ملکہ جوار خاتون اس علاقے کی سب سے بہترین منتظم تھیں۔ ان کی بنائی گئی نہریں آج بھی ہماری زندگیوں کا حصہ ہیں، اور گلگت کے پھیلاؤ کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے۔” ملکہ جواری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت کا معاشرہ تاریخی اعتبار سے کھبی بھی رجعت پسند نہیں رہا، اس کی مثال سترہویں ویں صدی میں ملتی ہے جب یہاں کے لوگوں نے ایک خاتون کو اپنا حکمران تسلیم کیا جس نے جدید گلگت کی بنیاد رکھی، اس کا بنیادی ڈھانچہ بدلا، آبپاشی کا نظام تعمیر کیا، گلگت کو پرامن اور سرسبز و شاداب کیا۔
یہ الگ بات ہے بعد ازاں ان نہروں کی دیکھ بھال نہیں کی گئی آبادی بڑھنے سے آلودگی میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 1980 تک ان نہروں کا پانی آبپاشی کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا، مگر آبادی کے بڑھنے اور عدم توجہ کی وجہ سے اب یہ پانی مکمل طور پر آلودہ ہو چکا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پولر ریجن سے باہر دنیا کے سب سے زیادہ صاف پانی کے گلیشئرز گلگت بلتستان میں موجود ہونے کے باوجود گلگت کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں لہذا گلگت بلتستان حکومت کو فوری طور پر اس اہم مسئلہ کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

البتہ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ گورنمنٹ آف گلگت بلتستان کے سابق چیف منسٹر حفیظ الرحمن نے سال 2017 میں گلگت نگرل کے مقام پر ملکہ جوار خاتون کے نام پر دادی جواری فیملی پارک تعمیر کیا ہے جبکہ سابق چیف منسٹر خالد خورشید نے اپنے دور حکومت میں گلگت میں سونی جواری پالیسی انسٹیٹیوٹ قائم کرکے ملکہ جوار خاتون کو جدید تاریخ گلگت بلتستان میں ایک عمدہ مقام عطا کیا ہے۔
یہ اقدامات قابل ستائش ہیں، مگر وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت کی اس بہادر، ترقی پسند اور روشن خیال ملکہ کی میراث کو محفوظ رکھنے کے لئے گلگت کے آبپاشی کی تاریخی نہروں کی دیکھ بھال کرکے دوبارہ فعال کیا جائے اور مکہ جوار خاتون کے نام پر مزید ادارے قائم کیے جائیں تاکہ تاریخ گلگت میں ویمن امپاورمنٹ کے لیے ایک درخشاں استعارہ کے طور پر ملکہ جوار خاتون کا نام ایک روشن ستارہ کی طرح چمکتا رہے اور ان کی میراث کو گلگت بلتستان کی ممتاز کوہ پیما ثمینہ بیگ جیسی بے شمار بہادر خواتین آگے بڑھائیں تاکہ گلگت بلتستان میں درآمد شدہ رجعت پسند سوچ کا خاتمہ ہو اور گلگت امن و ترقی کا گہوارہ بن کر اس طرح سر سبز شاداب اور پر امن و ترقی پسند بن جائے جو ملکہ جوار خاتون کے دور میں ہوا کرتا تھا.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button