کاظم میثم: علم، اصول اور مظلوموں کی آواز

کسی قوم کی بیداری، شعوری ارتقاء اور معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف علم و بصیرت سے آراستہ ہوں بلکہ اصول، اخلاص اور جرات کے بھی پیکر ہوں۔ گلگت بلتستان کے جواں ہمت، باشعور اور باکردار سیاستدان، کاظم میثم، ایسی ہی ایک قابلِ تقلید شخصیت ہیں جنہوں نے سیاست کو محض اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ عوامی خدمت، فکری رہنمائی اور اصولی جدوجہد کا میدان بنایا ہے۔
کاظم میثم کی سیاست محض نعروں یا جذباتی بیانات تک محدود نہیں، بلکہ وہ دلیل، شعور اور سچائی کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ ان کا اندازِ گفتگو تربیت یافتہ ہے، جس میں ایک معلم کی بصیرت، ایک رہنما کی سنجیدگی اور ایک مجاہد کا اخلاص نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی شروعات تدریس سے ہوئیں، اور آج بھی ان کے الفاظ میں وہی تربیت اور فکری گہرائی جھلکتی ہے۔ ان کے شاگرد، چاہے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی گفتگو سن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
کاظم میثم کی اصول پسندی ان کی شناخت ہے۔ وہ شخصیات کے بجائے نظریات کو اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ اس سیاست کے علمبردار رہے ہیں جس میں شفافیت، دیانت اور عوامی مفاد کو مقدم رکھا جائے۔ ان کا بیانیہ سادہ مگر مؤثر ہے: "طاقت اصولوں کی پابند ہو، اور قیادت کردار سے پہچانی جائے۔”
بطور اپوزیشن لیڈر، انہوں نے ہر فورم پر عوامی مسائل کو اجاگر کیا۔ وہ تنقید برائے تنقید کے قائل نہیں، بلکہ تعمیری سیاست، احتساب اور عوامی فلاح کے داعی ہیں۔ ان کی تقریریں محض خطابت کا مظاہرہ نہیں بلکہ محروموں اور مظلوموں کی ترجمانی ہوتی ہیں۔ انہوں نے ہر دباؤ، مخالفت اور رکاوٹ کے باوجود اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
بے آئین گلگت بلتستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے، ان کا حل نمائشی وعدوں یا وقتی فیصلوں میں نہیں، بلکہ ایسی قیادت میں ہے جو عوامی جذبات، آئینی حقوق اور سیاسی خودمختاری کی بھرپور نمائندگی کرے — اور کاظم میثم ایسی ہی قیادت کی بہترین مثال ہیں۔ ایسے وقت میں جب گلگت بلتستان آج بھی آئینی حیثیت سے محروم ہے اور سیاسی دھارے میں مکمل شمولیت کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، بااصول، نڈر اور مخلص رہنما ہی عوام کی اصل آواز بن سکتے ہیں۔
مذہبی ہم آہنگی اور بین المسالک اتحاد کے فروغ میں بھی ان کا کردار مثالی رہا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں معمولی اختلافات کو نفرت اور تفرقے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے، کاظم میثم نے ہمیشہ بھائی چارے، رواداری اور اتحاد کی بات کی۔ وہ کسی مخصوص مسلک یا طبقے کے نہیں بلکہ ہر مظلوم کی آواز بنے ہیں، اور یہی ان کی قیادت کا اصل حسن ہے۔
کاظم میثم کی عوامی مقبولیت کا راز ان کا خلوص، سادگی اور عوام سے قربت ہے۔ وہ جلسوں میں محض تقریریں نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے مسائل سنتے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور عملی طور پر مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں علم کا نور، اخلاق کی روشنی اور اخلاص کی خوشبو ہے، جس نے انہیں محض ایک سیاستدان نہیں بلکہ قوم کا ضمیر بنا دیا ہے۔
دعا ہے کہ خدا کاظم میثم کو اپنے مشن میں مزید کامیاب کرے، انہیں استقامت، بصیرت اور اخلاص عطا فرمائے، اور ہماری قوم کو ہمیشہ ایسے ہی باکردار، باشعور اور بااصول رہنماؤں کی رہنمائی نصیب ہو، جو نہ بکتے ہیں، نہ جھکتے ہیں، بلکہ صرف حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔