کالمز

عورتیں صرف تماشائی نہیں، میدان کی فاتح بھی بنیں گی

گلگت بلتستان کی سرزمین، جہاں کی بہادر بیٹیوں نے برفانی پہاڑوں، طوفانی دریاؤں، اور تنگ و تاریک راستوں سے گزر کر زندگی کو فتح کیا، وہاں آج بھی کچھ حضرات عورت کے ہاتھ میں صرف چمچ، سلائی اور جھاڑو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ خاتون پولو گراؤنڈ میں بیٹھ کر کھیل دیکھے، تو ان حضرات کو "ثقافت خطرے میں” محسوس ہوتی ہے – نہ جانے کیوں؟
حال ہی میں کچھ افراد نے وہاب شہید پولو گراؤنڈ کی ایک تصویر شیئر کی جس میں خواتین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پولو میچ سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، اور اس تصویر پر ایک بڑا لال کراس لگا دیا۔ گویا عورت کا کھیل دیکھنا جرم ہو، یا کوئی گناہ!
گلگت بلتستان کی ہر خاتون نے سردیوں میں سخت ترین حالات کا سامنا کیا۔ وہ نہ صرف مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے، بلکہ گیلی لکڑی سے دھواں کھاتے ہوئے کھانا بھی بناتی ہے، بچوں اور بیماروں کی خدمت کرتی ہے، اور ہر پریشانی کا سامنا صبر و ہمت سے کرتی ہے۔
تو جب بہار آئے، تو صرف مرد ہی کیوں جشن منائیں؟
اصل بات تو یہ ہے کہ مردوں کو چاہیے کہ ان بہادر خواتین کے ساتھ فخر سے ان فیسٹیولز میں شریک ہوں—اپنی ماؤں، بہنوں، بیویوں، اور بیٹیوں کو ساتھ لے کر۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ کراس ان خواتین پر نہیں، بلکہ تنقید کرنے والوں کی اپنی بیمار ذہنیت پر لگا ہے۔ وہ ذہنیت جو عورت کو محض ایک سجی ہوئی کرسی، یا "گھر کی زینت” سمجھتی ہے، اور جیسے ہی وہ کسی گراؤنڈ یا عوامی جگہ پر نظر آئے، اسے معاشرتی خطرہ قرار دیتی ہے۔
اگر عورت صرف دیواروں کے پیچھے ہی رہے، تو پھر وہ اور فرنیچر میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

تنقید کرنے والے عزت کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ عزت کی ان کی تعریف کیا ہے؟ کیا عزت کا مطلب یہ ہے کہ عورت بول نہ سکے، باہر نہ نکلے، کھیل نہ دیکھے، اور بس مرد کی مرضی پر جیے؟
یہ عزت نہیں، یہ قید ہے۔

اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا، قرآن نے انسان کو برابری سے نوازا، آئینِ پاکستان نے ہر شہری کو مساوی حقوق دیے۔ پھر کون لوگ ہیں جو دین، قانون اور تہذیب سب کو روند کر عورت کو صرف سایہ بنا دینا چاہتے ہیں؟
آج کی عورت گلگت بلتستان میں زندگی کے ہر میدان میں نمایاں ہے:
وہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر چڑھ چکی ہے، عدالتوں میں وکیل ہے، اسپتالوں میں ڈاکٹر ہے، سیاست میں رہنما ہے، بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اسکالر ہے، گھر کی کفیل ہے، اور ملک کی فخر ہے۔
پھر بھی اگر وہ چند سیڑھیوں پر بیٹھ کر پولو دیکھ لے، تو یہی کچھ لوگوں کی غیرت جاگ جاتی ہے؟
کیا پولو صرف مردوں کا کھیل ہے؟ اگر یہ پہاڑوں کا ورثہ ہے، تو پہاڑوں کی بیٹیوں کو اس سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ کیا وہ ان پہاڑوں سے نہیں آئیں؟

ہونا تو یہ چاہیے کہ گلگت بلتستان کی خواتین کے لیے ایک مکمل پولو ٹیم بنے۔ انہیں وہی سہولیات، کوچنگ اور مواقع دیے جائیں، جیسے مردوں کو دیے جاتے ہیں۔
کھیل کسی صنف کا نہیں ہوتا، قابلیت کا ہوتا ہے۔

سب سے اہم بات: عورت کو کھیلنے کا بھی حق ہے، تیراکی سیکھنے کا بھی، میدان میں اترنے کا بھی۔
ایک بچی اگر دریا میں گر جائے، یا کوئی خودکشی کی کوشش کرے اور اگلے لمحے پچھتائے، تو کیا ہم نے اسے بچنے کا ہنر دیا؟ اگر ہم نے نہیں سکھایا، تو یہ "غیرت” نہیں، مجرمانہ غفلت ہے۔
لہٰذا، جو حضرات خواتین کے کھیل دیکھنے پر اعتراض کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی سوچ کے قیدی ہیں – نہ کہ کسی "روایتی غیرت” کے علمبردار۔
خواتین کو تماشائی بنانے سے آگے بڑھ کر، انہیں میدان میں اتارنا ہوگا۔

یاد رکھیے:
عزت عورت کی خاموشی میں نہیں، اس کی آزادی میں ہے۔
عورت تماشائی ہی نہیں، کھلاڑی بھی ہے۔
اور گلگت بلتستان کی بیٹیاں اب پیچھے نہیں ہٹیں گی–

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button