کالمز

آخر کب تک ہم خاموش رہیں گے؟

تحریر۔ فضہ ستار
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

ایک اور حادثہ، ایک اور المناک خبر، اور چند دنوں کا سوشل میڈیا پر شور۔ پھر سب کچھ ویسا ہی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ گزشتہ دنوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار سیاح گلگت بلتستان کی ایک خستہ حال سڑک پر ہونے والے حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان کی ہلاکت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن یہ پہلا حادثہ نہیں تھا — اور شاید آخری بھی نہ ہو، اگر ہم اب بھی خاموش رہے۔

میں گلگت بلتستان کی ایک مقامی خاتون ہوں۔ برسوں سے دیکھ رہی ہوں کہ ہمارے علاقے کے نوجوان، بزرگ، بچے اور خواتین ان خطرناک سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے اپنی جانوں کا سودا کر رہے ہیں۔ ہر سال درجنوں جانیں ان تنگ، پرانی، اور بے حفاظتی سڑکوں کی نذر ہو جاتی ہیں، لیکن ان پر نہ کوئی خبر بنتی ہے اور نہ کوئی نوٹس لیا جاتا ہے۔ جب تک کوئی غیر مقامی فرد حادثے کا شکار نہ ہو، ہمارا درد سننے والا کوئی نہیں۔

آج ملک بھر میں سوال اٹھ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کی سڑکیں اتنی خستہ حال کیوں ہیں؟ لیکن یہ سوال اب پوچھنے کا نہیں، جواب دینے کا وقت ہے۔ ہمارے نمائندے، ہماری حکومتیں، اور متعلقہ ادارے برسوں سے جانتے ہیں کہ یہاں کا انفراسٹرکچر نہ صرف فرسودہ بلکہ جان لیوا ہے۔ مگر یہاں کی وادیاں تو خوبصورت ہیں، تصویریں اچھی آتی ہیں، سیاحت کو فروغ دینے کے نعرے بھی دلکش لگتے ہیں — بس کام کرنے کی نیت اور ہمت کسی میں نہیں۔

میں پوچھنا چاہتی ہوں: کیا ایک پاکستانی کی جان کی قیمت صرف اس کے شہر یا شناخت سے طے کی جاتی ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے عوام کا درد اتنا غیر اہم ہے کہ جب تک کسی بڑے شہر سے آنے والا شخص متاثر نہ ہو، تب تک یہ مسئلہ مسئلہ ہی نہیں بنتا؟

ہم حکومت سے یہ نہیں مانگ رہے کہ وہ ہمارے لیے سڑکوں پر قالین بچھا دے۔ ہم صرف محفوظ سفر چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سڑکیں کم از کم اتنی محفوظ ہوں کہ ماں اپنے بیٹے کو الوداع کرتے وقت اس خدشے میں نہ ہو کہ شاید وہ واپس نہ آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاح یہاں آئیں، خوشی خوشی گھومیں، اور بحفاظت اپنے گھروں کو لوٹیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حادثے معمول نہ ہوں، اور حادثوں پر صرف تعزیتی بیان جاری نہ ہوں۔

ہمیں چاہیے:

سڑکوں کی فوری مرمت اور از سر نو تعمیر

حفاظتی ریلنگ، سائن بورڈز، اور روشنی کا نظام

برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ کے دوران ریسکیو کا مؤثر نظام

اور سب سے بڑھ کر، مقامی لوگوں کی آواز کو سننا اور ان کے ساتھ مشاورت

گلگت بلتستان پاکستان کا حسن ہے، مگر حسن کو صرف دیکھا نہیں جاتا — سنوارا بھی جاتا ہے، بچایا بھی جاتا ہے۔ اگر ہم نے آج آواز نہ اٹھائی، تو آنے والا کل مزید جنازے لے کر آئے گا۔ اور پھر، شاید ہم ان میں سے کسی اپنے کو کھو دیں۔

میں تمام باخبر شہریوں، خاص طور پر نوجوان طبقے سے اپیل کرتی ہوں کہ خاموشی کی چادر اب اتار دیں۔ اپنے نمائندوں سے سوال کریں۔ انہیں بتائیں کہ ہم اب اور جانیں کھونا نہیں چاہتے۔ ہمیں محفوظ سڑکیں، محفوظ سفر اور محفوظ مستقبل چاہیے — اور یہ ہمارا حق ہے، کوئی خیرات نہیں۔

آواز اٹھائیے، کیونکہ خاموشی کی قیمت اب جان سے بھی مہنگی ہو چکی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button