نفرت کی بھینٹ چڑھتی نئی نسل کا مستقبل

چترال اپر سے تعلق رکھنے والی انفلوئنسر ثنا یوسف کے قتل کے حوالے سے ملزم اور اس کیس سے متعلق کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو ہمارے معاشرے کو مستقبل میں مزید خونریز واقعات کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس افسوسناک قتل کی مذمت کرنے اور انصاف کا مطالبہ کرنے کے بجائے، بعض حلقوں کی جانب سے اس واقعے پر ایسے جشن منائے جا رہے ہیں گویا ملزم نے کوئی نیک کام کیا ہو جس کا صلہ پورے معاشرے کو ملے گا۔
اسی سلسلے میں چترال سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب، جو کینیڈا کے شہری ہیں اور وہیں مقیم ہیں، سوشل میڈیا میں اکثر چترال کے مختلف معاملات پر رائے دیتے ہیں اس کیس کے حوالے سے کہتے ہیں:
"ایک ٹک ٹاکر اپنے انجام کو پہنچ گئی، لعنت ہے ایسے باپ پر جو اپنی اولاد سے بے خبر رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے والدین کا کہنا نہیں مان رہی تھی تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں۔”
مزید یہ کہ اس شخص کے کے سوشل میڈیا پروفائل پر چترال سے تعلق رکھنے والے مختلف لڑکیوں کی تصاویر اور ویڈیوز موجود تھیں، جن پر نفرت انگیز تبصرے کیے گئے تھے یہ مواد اب یا تو ڈیلیٹ کیا جا چکا ہے یا پرائیویٹ کر دیا گیا ہے۔
یہی صاحب چترال میں اپنی کھلی گالم گلوچ اور نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے مشہور ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چترال سے تعلق رکھنے والے بہت سے تعلیم یافتہ افراد نہ صرف ان کو فالو کرتے ہیں بلکہ ان کی پوسٹوں کی تبصرے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس جرم میں ہم سب کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں — ہم لنک کھولتے ہیں، لائیک کرتے ہیں، شیئر کرتے ہیں اور ان بیہودہ باتوں پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔ یعنی چترال میں گالم گلوچ، نفرت انگیز مواد کی تشہیر میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔
اگر ہم اسی طرح ایسے نفرت پھیلانے والے پروفائلز کو فالو کرتے رہے، تو کل کلاں کوئی اور ثنا یوسف اسی طرز کا شکار بن جائے گی۔
میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین کے الفاظ کے انتخاب سے متعلق مفتی حلیم الرحمان کا کہنا ہے۔
"قتل جیسے دلخراش واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بعض صارفین نہایت غیر مہذب، غیر اخلاقی پوسٹس اور تبصرے کرتے ہیں، یا لعن طعن میں مشغول ہوتے ہیں۔ نہ ہمارا دین اسلام اور نہ ہمارا معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام تو مرنے والے کی برائی بیان کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔”
حدیث کا مفہوم ہے کہ مردوں کو گالی نہ دو
اگر ہم ثنا یوسف مرحومہ کے خاندان والوں کے ساتھ ان کے دکھ اور غم میں شریک نہیں ہوسکتے ہیں تو کم ازکم ان کے دکھ اور غم میں اضافہ کا باعث نہ بنے اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔