ذہنی بیمار معاشرے میں بیٹی کی پیدائش سب سے بڑا جرم بن چکی ہے

ثنا، تم بہت اچھی تھی، بہت پیاری اور بہت معصوم۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہ دنیا تمہارے قابل نہ رہی۔ ہمیں تم پر فخر ہے۔ تم نے "نہیں” کہا—اور بس تمہاری اسی ایک "نہیں” نے معاشرے کی منافقت اور جھوٹی انا کا پردہ چاک کر دیا۔
یہ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ قتل کی وجہ کیا تھی؟ یہ کیوں ہوا؟ زینب تو صرف سات سال کی تھی، پھر بھی ریپ کیا گیا اور قتل کر دیا گیا—یہ وہی لوگ ہیں جو صرف سوال کرتے ہیں، رائے بھی دیتے ہیں، لیکن کچھ کرتے نہیں۔ اور جب کچھ نہیں کر سکتے تو محض "مذمت” کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔
تمہیں یاد ہو یا نہ ہو، کچھ سال پہلے چترال میں ایک دہرے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، جو دس دن بعد میڈیا میں رپورٹ ہوا۔ اس وقت بھی لوگ واہ واہ کر کے گزر گئے۔ مقتولین کو "بدکردار” کہہ کر کہا گیا کہ ان کا قتل معاشرے کی صفائی ہے۔ یہ بات کسی عام شخص نے نہیں، ایک مذہبی سیاسی جماعت کے نمائندے نے کہی تھی۔ جانتی ہو، ان دونوں کو صرف ایک دوسرے کو پسند کرنے کے الزام میں قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے کو "غیرت کے نام پر قتل” کہا گیا، حالانکہ وہ سراسر بے غیرتی تھی۔
تم سوشل میڈیا پر تھیں۔ تمہارا اس دنیا سے چلے جانا یقینی طور پر بحث کو جنم دیتا ہے—کیونکہ اتنے "دانشور” موجود ہیں۔
جہاں تم رہتی تھیں، اسی صوبے میں ایک چار سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کر کے صحن میں دفن کر دیا گیا۔ یہ اسی سال کی بات ہے۔ پولیس نے قاتل کو گرفتار تو کیا، لیکن کچھ لوگوں نے اس کیس میں بھی اپنی "افلاطونی” دانش جھاڑ دی۔ تم تو سترہ سال کی تھیں۔
مجھے معلوم ہے، تم اس دور کی مارکیٹ کو سمجھتی تھیں۔ تمہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ دنیا میں فزیکل مارکیٹ کا رجحان کم ہو رہا ہے اور مستقبل آن لائن مارکیٹ کا ہے۔ لیکن شاید تمہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ صرف باہر کی دنیا میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں، خاص طور پر خلیج میں، آن لائن شاپنگ کی پروموشن تم جیسی لڑکیاں ہی کرتی ہیں۔
لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں سامان بکتا ہے، اور یہاں جھوٹ، فریب، نفرت، کفر کے فتوے اور غداری کے الزامات۔ تمہیں اس کا شعور ہونا چاہیے تھا، جس سے تم ناآشنا تھیں۔
عام طور پر قتل کو اسلام میں حرام سمجھا جاتا ہے، مگر "مملکتِ خداداد” میں اسے اپنی مرضی سے مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ خون کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے، مگر یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ خون کس خاندان، قبیلے یا مسلک سے ہے۔ ہر مسلک اپنے مرنے والے کو "شہید” اور دوسرے کے مرنے والے کو "جہنم واصل” کہتا ہے۔
اگر مقتول لڑکی ہو، تو پورا خاندان نشانے پر آ جاتا ہے۔ طعنے دیے جاتے ہیں، اور اگر کہیں سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ برآمد ہو جائے، تو الزامات کی ایک نئی فیکٹری کھل جاتی ہے۔
تمہیں شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ چترال اور گلگت میں سب سے زیادہ خودکشیاں ہوتی ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ "خودکشیاں” نہیں، قتل ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔ انہیں اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں—یا انہیں قتل کر کے خودکشی قرار دے دیا جاتا ہے، تاکہ کیس بند ہو جائے۔
اب ہمارے ملک میں سوال یہ ہے کہ بیٹی پیدا ہی کیوں ہو؟ اگر پیدا نہ ہوتی، تو نہ قتل ہوتی، نہ الزامات لگتے۔ اصل جرم ٹک ٹاک یا فیس بک کا استعمال نہیں ہے، اصل جرم لڑکی ہونا ہے۔