گانچھے میں سکیورٹی یا سیاحت کا گلا گھونٹنے والی نگرانی؟

گلگت بلتستان کا شمار ان چند خوش نصیب خطوں میں ہوتا ہے جہاں قدرت نے اپنی فیاضی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ فلک بوس پہاڑ، نیلگوں جھیلیں، پُرسکون فضائیں، خالص ثقافت اور مہمان نواز لوگ اس علاقے کو سیاحت کے لیے جنت بنا دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت گلگت بلتستان میں غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ضلع گانچھے، جو حسنِ فطرت اور قدرتی مناظر کے لحاظ سے کسی بھی دوسرے علاقے سے کم نہیں، آج ایک ایسے مسئلے کا شکار ہو چکا ہے جو سیاحت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔
یہ مسئلہ سیاحت کے نام پر سکیورٹی کی وہ غیر ضروری اور غیر متوازن مداخلت ہے جو نہ صرف سیاحوں کے لیے باعثِ پریشانی ہے بلکہ علاقے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ گانچھے میں جیسے ہی کوئی چائینیز یا غیر ملکی سیاح داخل ہوتا ہے، پولیس فوراً اس کے ہمراہ ایک اہلکار تعینات کر دیتی ہے۔ بظاہر یہ اقدام اس کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے، مگر یہ "حفاظت” اتنی شدید اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے کہ سیاح خود کو آزاد انسان کے بجائے ایک قیدی محسوس کرتا ہے۔ پولیس اہلکار اس کے ساتھ رہائش گاہ میں بھی ہمراہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب سیاح باتھ روم جاتا ہے تو وہ دروازے کے باہر کھڑا رہتا ہے۔ یہ رویہ کسی طور بھی مہمان نوازی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ یہ ایک ایسے بے اعتمادی کے تاثر کو جنم دیتا ہے جو نہ صرف مہمان کو بے چین کرتا ہے بلکہ علاقے کی ساکھ کو بھی داغدار کرتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع جیسے گلگت، ہنزہ، نگر، استور یا اسکردو میں سیاح آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں، مقامی لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں، بازاروں اور ہوٹلوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور وہاں انہیں کسی غیر معمولی سکیورٹی نگرانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن جیسے ہی وہ گانچھے میں قدم رکھتے ہیں، تو گویا ایک دوسرے ہی ماحول میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں ان کی ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ نتیجتاً، ایک بار کا آیا ہوا سیاح اگلی بار اس علاقے کا نام سنتے ہی توبہ کر لیتا ہے۔
یہ رویہ صرف سیاحوں کے لیے اذیت ناک نہیں بلکہ علاقے کے معاشی امکانات کے لیے بھی زہرِ قاتل ہے۔ سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس پر گلگت بلتستان کی معیشت کا انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، دستکاری، مقامی مارکیٹس اور روزگار کے دیگر ذرائع کا دار و مدار سیاحوں کی آمد پر ہے۔ اگر ایک ضلع کی سکیورٹی پالیسی کی وجہ سے سیاح وہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیں، تو اس کے اثرات پورے خطے پر پڑ سکتے ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ سیاحت کی نفسیات کو سمجھیں۔ سیاح حفاظت سے زیادہ عزت اور آزادی کو ترجیح دیتا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر اس کی خلوت میں مداخلت یا اس پر غیر ضروری نگرانی ایک منفی تاثر چھوڑتی ہے۔ اگر واقعی کوئی سکیورٹی خدشات ہیں تو ان کا حل خاموش، خفیہ اور غیر دخل اندازی پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ مہمان کو اس کا براہ راست نشانہ بنایا جائے۔
گانچھے کا حسن، وہاں کے لوگ، ثقافت اور مہمان نوازی اپنی مثال آپ ہیں، لیکن اگر یہی مہمان نوازی سکیورٹی کے خول میں جکڑ دی جائے، تو وہ سیاح جو دنیا کے دور دراز علاقوں سے یہاں سکون اور فطرت کی کھوج میں آتا ہے، مایوس ہو کر واپس چلا جاتا ہے۔ اور جو نقصان وہ اپنی ناخوشی کی شکل میں ساتھ لے کر جاتا ہے، وہ کسی رپورٹ میں شمار نہیں ہوتا، لیکن علاقے کے تاثر اور معاشی امکانات پر گہرا اثر چھوڑ جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ گانچھے کی انتظامیہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔ یہ ایک چھوٹا سا اقدام دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے اثرات بہت بڑے ہیں۔ اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کہ گانچھے میں سیاحت فروغ پائے، تو ہمیں مہمان کو قیدی نہیں، مہمان سمجھنا ہوگا۔ سکیورٹی اور عزتِ نفس کے درمیان توازن قائم کرنا ہی پائیدار سیاحت کی ضمانت ہے۔