کالمز

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے شرمناک واقعات

یہ بات خوش آئند ہے کہ گلگت پولیس نے چند گھنٹوں کے اندر گلگت میں ایک تیرہ سالہ بچے سے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کے واقع کے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ امید ہے پولیس تمام ثبوت جمع کرنے کے علاوہ بروقت میڈیکل ٹسٹ کرائے گی تاکہ اس ملزم کو عدالت سے قرار واقعی سزا مل سکے۔
یہ بات انتہائی شرمناک اور تشویشناک ہے کہ گلگت بلتستان میں ایسے کیسسز وقتا فوقتا سامنے آتے ہیں۔ لیکن یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات چھپائے جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات کا بروقت رپورٹ کرنا اس لئے لازمی ہے کیونکہ ایسے کیسسز میں ملوث افراد قانون کی گرفت میں اگر نہ آجائیں تو یہ دیگر بچوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس بات سے یہاں کے اکثر لوگ واقف ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سالانہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کئ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر کیسسز سماجی دباو یا بدنامی کے خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے۔
بچوں کے تحفظ پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی حالیہ دنوں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال یعنی 2024 میں پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3364 کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ساحل نے قومی و بین القوامی سطح پر شائع ہونے والے 81 اخبارات سے حاصل کئے ہیں۔
ان اعدادو شمار کے مطابق 11 سے 15 سال کے بچے سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔ جبکہ زیادتی کے واقعات پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے ساتھ بھی پیش آئے ہیں۔ ان واقعات سے متاثرہ بچوں میں 53 فیصد بچیاں اور 47 فیصد بچے شامل ہیں۔
صوبہ پنجاب میں 78 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے، سندھ میں 12 فیصد، خیبر پختون خواہ میں 4 فیصد، اسلام آباد میں 4 فیصد جبکہ بلوچستان، آداد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دو دو فیصد کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسسز میں 56 ایسے کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں زیادتی کے بعد بچے قتل ہوئے، 1204 کیسسز میں بچے اغواء ہوئے، 241 کیسسز میں بچوں کی گمشدگی کی رپورٹس درج کی گئیں جبکہ کم عمری کی شادی کے 45 کیسسز رپورٹ ہوئے جن میں 43 بچیاں تھیں جبکہ دو بچے تھے۔
یاد رہے کہ مذکورہ واقعات وہ ہیں جو صرف اخبارات نے رپورٹ کئے ہیں جبکہ جو کیسسز پولیس یا اخبارات میں رپورٹ نہیں ہوئے وہ ان سے کئ گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ مذکورہ واقعات میں 93 فیصد واقعات پولیس کو رپورٹ کئے گئے جو کہ خوش آئند بات ہے اور یہ والدین کی آگاہی کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ رپورٹ کرنے سے ان واقعات کے تداراک کے لئے اقدامات ہوسکتے ہیں۔
اس طرح کے کیسسز میں نہ صرف ملزم کو سزا دینا ضروری ہے بلکہ متاثرہ بچے کی سائیکو سوشل ریہبلٹیشن بھی ضروری ہے تاکہ وہ ذہنی اذیت کا شکار نہ ہو اور بعد ازاں انتقامی کارروائی کے طور پر وہ دوسرے بچوں کو جنسی ذیادتی کا نشانہ نہ بنا لے۔ کیونکہ ماہرین کے مطابق اس کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ متاثرہ بچے بڑے ہوکر انتقاما دوسرے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں یا وہ تشدد پسند رویے اپناتے ہیں۔ ایسے کیسسز میں اگر ملزم بھی کم عمر ہے تو لازمی ہے کہ اس کی بھی سزا کے علاوہ سائیکو سوشل ریہبلیٹیشن کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ جیل سے نکل کر دوبارہ کسی بچے کو نشانہ نہ بنا سکے۔
باقی صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی چائلڈ پروٹیکشن ریسپانس ایکٹ 2017 نفاذ العمل ہے اس پر سختی سے عملدرآمد کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے جب کہ حکومت کی طرف سے ترجیحی بنیادوں پر مالی و انسانی وسائل فراہم کرکے خیبر پختون خواہ کی طرح گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں چائد پروٹیکشن یونٹس کا قیام عمل میں لاا کر ان کو فعال بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سب سے اہم کام جو کرنے کا ہے وہ یہ کہ بچوں اور والدین کو بچوں کے تحفظ سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ سکولوں، مدرسوں ، عبادتگاہوں اور کمیونٹی مقامات پر آگاہی پروگرامز منعقد کئے جائیں تاکہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنا کردار ادا کرسکیں اور ایسے واقعات بروقت متعلقہ اداروں کو رہورٹ کرکے ملزمان کیفر کردار تک پہنچائیں جا سکیں۔
والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹوں کی تربیت کریں اور ان پر نظر رکھیں تاکہ وہ نہ صرف خود کو محفوظ رکھ سکیں بلکہ وہ دوسروں بچے اور بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے جیسے گھناونے عمل کا ارتکاب نہ کر سکیں اور اگر کوئی بچہ یا بڑا آدمی بچوں کی جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہوئے پکڑا جائے تو والدین اور اہل خانہ کو ان کا ساتھ دینے کی بجائے ان کو قانون کے حوالہ کرنا چاہئے تاکہ معاشرے سے قبیح فعل کا انسداد ممکن ہوسکے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button