سکردو کا مستقبل: قدرتی حسن یا کنکریٹ کا قبرستان؟

وادیٔ سکردو, گلگت بلتستان کا دل، ایک ایسا خطہ جہاں قدرت نے اپنی تمام تر خوبصورتی فیاضی سے نچھاور کی ہے۔جھیلیں، برف پوش پہاڑ، سرسبز میدان، شفاف فضائیں اور قدیم ثقافت؛ یہ سب مل کر سکردو کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک خوابناک منزل بناتے ہیں۔ لیکن آج یہ خواب تیزی سے ایک ڈراؤنے منظر میں بدل رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ وہ حقائق بیان کرنا ہے جن سے ہم منہ موڑتے آ رہے ہیں۔
تعمیرات کا طوفان: ترقی یا تباہی؟
سکردو میں حالیہ برسوں میں سیاحت میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اس نے علاقے کی معیشت کو ضرور سہارا دیا ہے، لیکن اس کا خمیازہ ماحول، ثقافت، اور قدرتی وسائل کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاحوں کی آمد کے باعث ہوٹل، گیسٹ ہاؤس، ریسٹورنٹ، مارکیٹیں، کمرشل پلازے، حتیٰ کہ ذاتی رہائشیں بھی اب کمرشل بنا دی گئی ہیں۔
ہر خالی جگے پر اینٹ، سیمنٹ، لوہے اور شیشے سے ایک نئی تعمیر کھڑی کی جا رہی ہے۔ قدرتی زمین کے خد و خال کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ وادیوں اور دریاؤں کے کنارے پر بھی ہوٹل بنائے جا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سکردو اب "خوبصورتی کی علامت” کم اور "کنکریٹ کا قبرستان” زیادہ لگنے لگا ہے۔
ماحولیاتی نظام خطرے میں
سکردو ایک ماحولیاتی طور پر نازک خطہ ہے۔ یہاں کی زمین، پانی اور ہوا، سب کچھ ایک مخصوص توازن کے تابع ہے۔ لیکن حالیہ برسوں کی بے ہنگم تعمیرات اور سیاحوں کی زیادتی نے اس توازن کو بری طرح بگاڑ دیا ہے۔
پانی کے قدرتی ذرائع جیسے چشمے، جھیلیں، اور پہاڑی نالے، اب آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہوٹلوں سے خارج ہونے والا غیر محفوظ گندہ پانی براہ راست انہی ذرائع میں شامل کیا جا رہا ہے۔ کچرے کی مقدار کئی گنا بڑھ چکی ہے، جس کے لیے نہ تو کوئی ٹھوس صفائی نظام موجود ہے اور نہ ہی مقامی حکومت کے پاس کوئی پائیدار حکمتِ عملی۔
فضائی آلودگی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ٹورازم سیزن کے دوران گاڑیوں کا شور، دھواں اور رش ایک ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ جاتا ہے۔ کئی علاقے تو ایسے ہیں جہاں مقامی لوگ ٹریفک اور شور شرابے کے باعث اپنے گھروں سے نکلنے سے کتراتے ہیں۔
ثقافتی تنوع پر بھی حملہ
سکردو نہ صرف قدرتی حسن کا مرکز ہے بلکہ ایک ثقافتی خزانہ بھی ہے۔ یہاں کے لوگ، ان کی زبانیں، لباس، روایات اور طرزِ زندگی، سب کچھ ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے تیزی سے پھیلتی کمرشل سیاحت نے اس شناخت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
سیاحوں کی آمد کے ساتھ مقامی نوجوانوں میں اپنے ثقافتی لباس، زبان اور روایات سے دوری دیکھی جا رہی ہے۔ تاجر حضرات صرف منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے رجحانات کو فروغ دے رہے ہیں جو مقامی شناخت کے خلاف ہیں۔ اگر یہی رجحان جاری رہا، تو وہ سکردو جسے ہم جانتے ہیں، صرف تصویروں اور کتابوں میں باقی رہ جائے گا۔
حکومتی ادارے کہاں ہیں؟
اس تمام صورتحال میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومتی ادارے مکمل طور پر غیر فعال نظر آتے ہیں۔ نہ کوئی ٹورزم پالیسی، نہ کوئی ماحولیاتی ریگولیشن،— کچھ بھی باقاعدہ نافذ العمل نہیں۔
سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی تو ہر سطح پر گنی جا رہی ہے، لیکن اس آمدنی کو ماحولیاتی تحفظ یا انفرااسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کرنے کی نیت کہیں نظر نہیں آتی۔ کوئی ادارہ نہ تو ماحولیات پر نظر رکھ رہا ہے، نہ ہی سیاحت کے پائیدار ماڈل پر کام کر رہا ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت آنے والے وقتوں میں ایک قومی سانحہ بن سکتی ہے۔
اگر یہی روش رہی تو؟
اگر ہم نے ابھی بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ دن دور نہیں جب سکردو بھی مری اور نتھیا گلی جیسے مسائل کا شکار ہو جائے گا:
ٹریفک جام
پانی کی شدید قلت
جھیلوں کا سوکھ جانا
زمین کھسکنے کے واقعات
مہنگائی اور مقامی لوگوں کی بے دخلی
سیاحوں کا اکتاہٹ کا شکار ہو جانا
سکردو کے موجودہ راستے پر چلتے رہے تو آنے والے پانچ سے دس سال میں یہ خطہ اپنی کشش کھو دے گا، اور سیاحت خود تباہی کا باعث بن جائے گی۔
ممکنہ حل: وقت ہے ابھی باقی
یہاں مایوسی کی بات نہیں بلکہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ سکردو کو بچانے کے لیے فوری اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ چند ممکنہ اقدامات درج ذیل ہیں:
نئی تعمیرات پر کم از کم دس سال کی پابندی لگائی جائے، خاص طور پر ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور کمرشل عمارتوں پر۔
پائیدار سیاحت کے لیے ایک جامع ٹورزم ماسٹر پلان تیار کیا جائے جس میں ماحولیاتی، ثقافتی اور معاشی توازن کا خیال رکھا جائے۔
ہر نئی تعمیر سے پہلے ماحولیاتی اثرات کی جانچ کو لازمی قرار دیا جائے۔
مقامی حکومتوں کو ماحولیاتی تحفظ کا بجٹ دیا جائے اور انہیں بااختیار بنایا جائے۔
اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز میں ماحولیاتی آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں تاکہ مقامی لوگ خود اپنی زمین کے محافظ بنیں۔
اختتامیہ: فیصلہ ہمیں کرنا ہے
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم سکردو کو کیا دینا چاہتے ہیں!
ایک بگڑتی ہوئی، بے ترتیب اور آلودہ سیاحتی معیشت، یا ایک خوبصورت، پائیدار، اور خوشحال مستقبل؟
فیصلہ آج کرنا ہوگا، کیونکہ کل بہت دیر ہو چکی ہو گی۔