کالمز

اہل سنت گلگت بلتستان میں ایک مجدد کی ضرورت

گلگت بلتستان قدرتی حسن، سادہ مزاجی اور مذہبی رجحان کے اعتبار سے ایک منفرد خطہ ہے۔ یہاں کی وادیاں خاموش ہیں، پہاڑ بلند ہیں، یہاں مختلف مذاہب و مسالک کے لوگ آباد ہیں، اہل سنت الجماعت دوسری بڑی آبادی ہے۔ اہل سنت کمیونٹی اپنے دیگر برادر کیمونٹیز کے اعتبار سے انتہائی کمزور پوزیشن پر ہے۔ اہل سنت کی صورت حال ایسی ہے جیسے روشنی کے خزانے کے باوجود اندھیرے میں ڈوبی ہوئی قوم ہو۔

یہاں لاکھوں اہل سنت آباد ہیں، مگر ہر اعتبار سے کمزور، منتشر اور بے سمت دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ماننے میں حرج ہی نہیں کہ اہل سنت عوام فکری لحاظ سے الجھن کا شکار ہیں، تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کی حد کو چھو رہے ہیں۔ ان کے دینی مدارس و مراکز کمزور اور غیر مؤثر ہیں اور عصری و جدید اداروں کا وجود ہی نہیں، قیادت کا شدید فقدان کا سامنا کررہے ہیں، دعوت و تبلیغ کے میدان میں سستی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، سیاسی طور پر غیر فعال اور بے سمت ہیں، اور سب سے بڑھ کر، سماجی، تنظیمی،اصلاح و فکری تعمیر کے کاموں سے غافل اور لاپروا ہیں۔

ایسے میں یہ سوال بہت شدت سے اٹھتا ہےکہ

"کیا اہل سنت گلگت بلتستان کو ایک مجدد کی ضرورت نہیں؟”

مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت بار بار ہمیں یہی یاد دلاتی ہے کہ امت جب اپنے اصل راستے سے ہٹتی ہے، جب ظلمتیں بڑھ جاتی ہیں، جب مایوسی غالب آ جاتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی "شخص” کو اٹھاتا ہے، جو "امت کی تجدید” کا کام کرتا ہے۔

گلگت بلتستان کی مجموعی اہل سنت کمیونٹی کا مطالعہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ کمیونٹی فکری انحطاط اور نظریاتی زوال کا شکار ہے۔ خاص طور اہل سنت کا نوجوان طبقہ اس وقت فکری انتشار کے عروج پر ہے، نہ انہیں اپنے مسلک کی پہچان ہے، نہ امت کی تاریخ کا شعور، نہ عصری چیلنجز کا ادراک ہے۔ بس ایک ہجوم ہے جو بے سمت رواں و دواں ہے جس کو درست سمت ہانکنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی انہیں صراط مستقیم دکھائی دیتا ہے۔

مولانا ندوی رحمہ اللہ نے یہی منظر تاریخ دعوت و عزیمت میں بیان کیا ہے "جب امت کا فکری قافلہ راستہ بھول جاتا ہے، اور علم کے مراکز گونگے ہو جاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ایک درد مند دل کو جگاتا ہے جو دلوں میں ایمان کی حرارت واپس لاتا ہے۔”

گلگت بلتستان کو ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے، جو نوجوانوں میں فکری بیداری، دینی وقار، مسلکی اعتدال، جدید چیلنجز کا ادراک اور علمی غیرت پیدا کرے۔،
صرف فکری انحطاط کی بات ہوتی تو بھی تریاق آسان تھا یہاں تو تعلیمی و تحقیقی تنزلی اور تعلیم و تربیت بھی ناپید ہی ہے۔اس خطے میں اہل سنت کے دینی مدارس ہو یا عصری اسکول، دونوں ہی کمزور اور بے سمت ہیں۔ بلکہ کہا جائے کہ اہل سنت کمیونٹی کے پاس عصری علوم اور جدید فن و حکمت کے ادارے ہی نہیں، اسی طرح نہ اہل سنت کے پاس مضبوط جامعات ہیں، نہ معیاری تحقیق، نہ عالمگیر سوچ رکھنے والے اہل قلم و علم۔

اگر کسی نے پوچھا کہ اس خطے میں اہل سنت کہاں سے آئےتھے؟ کیسے بسے؟ ان کے مبلغین و مصلحین اور دعاۃ و مبلغین کون تھے کیسے کام کیا، دعوت دین کی کیا کیا خدمات انجام دیں؟ تو کسی کے پاس کوئی جواب ہی نہیں اور نہ کی کسی کتاب میں مذکور ہے۔

تاریخ دعوت و عزیمت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ "امت کی بیداری، تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر مجدد نے پہلا کام یہی کیا کہ قوم کو علم سے جوڑا، فکر سے روشن کیا، اور تربیت سے اٹھایا۔” آج ہمیں بھی مدارس و اسکولز میں ایسی اصلاح کی ضرورت ہے جو صرف نصاب کی نہیں، مزاج کی تبدیلی لائے، جو صرف تعلیمی ڈگری نہیں بلکہ نظریاتی وفاداری بھی عطا کرے۔

کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں کہ اہل سنت گلگت بلتستان قیادت کے شدید فقدان کا شکار ہے؟

اس خطے میں اہل سنت کے پاس کوئی متحدہ، باوقار، غیر متنازع، بافکر قیادت موجود نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قوم منتشر ہے، کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں، کوئی واضح لائحہ عمل نہیں۔ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں، کسی کو راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی راہ رو ہے، حالات بدتری کی انتہا کو پہنچے تو کچھ لوگ احتجاج اور دھرنوں اور دھمکیوں پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ اخباری بیانات اور سوشل میڈیا پر اپنا وجود دکھانے لگتے ہیں اور بس،

مولانا ندوی رحمہ اللہ کے نزدیک جب "جب قیادت ناپید ہو، تو قوم کی اجتماعی کشتی طوفان میں ڈولنے لگتی ہے۔ تب کسی مجدد کا اٹھنا محض ضرورت نہیں، فریضہ بن جاتا ہے۔”

گلگت بلتستان کے اہل سنت کو بھی ایسی قیادت درکار ہے جو ذاتی مفاد سے بلند ہو، اجتماعیت کی علمبردار ہو، اور کردار و دعوت کا پیکر ہو۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر مستقبل کا راستہ دکھا سکے اور کمیونٹی کا نجات دہندہ بن کر جادہ منزل تک پہنچا دے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج دعوت و عزیمت کا احیاء سب سے اہم اور اولین کام ہے۔ آج اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے تو وہ دعوت و عزیمت کی فضا ہے۔وہی جذبہ جو تاریخ دعوت و عزیمت کا مرکزی موضوع ہے۔

مولانا ندوی رحمہ اللہ کے نزدیک "ایمان صرف عقیدہ نہیں، دعوت ہے۔ دعوت صرف زبانی نصیحت نہیں، قربانی اور حکمت کا تقاضا کرتی ہے۔”

اہل سنت کو ایسی دعوتی تحریک کی ضرورت ہے جو اخلاق، کردار، سماجی خدمت، نوجوانوں کی تربیت، اور تعلیم کی بنیاد پر ہو، اور جو مسلکی تعصب سے بلند ہو کر خیر و فلاح کا پیغام عام کرے اور دعوت الی اللہ و الی الرسول کا اسلوب کلیمی و یوسفی ہو،اس کے پیش نظر تجدیدی کاموں میں سلف صالحین کا منہج ہو۔

اگر ہم گلگت بلتستان کی اہل سنت کمیونٹی کے سماجی، معاشی اور تنظیمی ڈھانچہ کی بات کریں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اہل سنت اس وقت ہر سماجی میدان میں پیچھے ہیں، بے روزگاری کا عفریت کھڑا ہے، معاشی کمزوری نے سب کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے، خواتین و بچوں کی دینی تربیت کا فقدان اپنے عروج پر ہے، مساجد، مدارس، فلاحی اداروں اور تھنک ٹینکس کی کمی روز روشن کی طرح عیاں ہے، ان جیسے سینکڑوں مسائل ہیں جو اس کمیونٹی کو درپیش ہیں، یہی وہ اسباب ہیں جنہوں نے اہل سنت کو ماضی میں بھی کمزور کیا تھا اور حال بھی بے حال ہے اور مستقبل بھی دھندلا رہا ہے۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ کے مطابق "اگر ایک طبقہ صرف عبادات پر زور دے اور سماج کو نظر انداز کرے، تو وہ توازن سے ہٹ جاتا ہے، اور بالآخر غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔” بہرحال ان تمام تفصیلات میں پڑے بغیر کچھ مختصر زوال پذیر خاکہ کے سوال درپیش ہے کہ ہمیں کیسا مجدد چاہیے؟ تو اس کا سیدھا سادھا جواب ہے کہ جو قرآن و سنت کا علمبردار ہو

جو امت کی تاریخ و تجربات سے واقف ہو

جو فکری و نظریاتی لحاظ سے متوازن ہو

جو تعلیم، دعوت، سیاست اور سماجی خدمت کے میدانوں کو جوڑ سکے

جو صرف خطیب نہ ہو، تبدیلی کا معمار ہو جو ایک فرد نہ ہو بلکہ ایک مکمل احیائی تحریک ہو اور تحریک کا کردار ادا کرے

تاریخ دعوت و عزیمت کے ہر صفحے پر ایسے لوگوں کی مثالیں بکھری پڑی ہیں، جنہوں نے اپنے وقت کی سست اور منتشر امت کو نئی روح دی۔

امت کی طرف سے پہلا قدم ضروری ہے، یاد رکھیے! مجدد کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، مگر امت کو اس کے لیے زمین ہموار کرنی ہوتی ہے۔

وہ مجدد اور اس کی تحریکی و احیائی ٹیم کا اولین کام،

نئی نسل کو شعور دینا ہوگا

دینی تعلیم و دعوت کو مضبوط کرنا ہوگا

فکری محاذ پر متحرک ہونا ہوگا

اور اجتماعی اصلاحی کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا اور ہر اعتبار سے آگے بڑھنا ہوگا، تحریک و مجدد کے ساتھ اہل سنت کمیونٹی کو بھی بڑے پیمانے پر بیدار ہونا ہوگا، اگر کمیونٹی بیدار نہ ہو، تو مجدد کی آواز بھی صدا بہ صحرا بن جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کے اہل سنت کو اگر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہونے سے بچنا ہے، تو انہیں ایک فکری تحریک، ایک نظریاتی سمت، اور ایک مجدد کی قیادت کی طرف بڑھنا ہوگا۔

یہ وقت ہے کہ ہم تاریخ دعوت و عزیمت کو صرف مطالعہ نہ کریں بلکہ اس کے مطابق اپنی دعوت و تنظیم، فکر و قیادت اور تعلیم و سماج کو ترتیب دیں۔

کچھ احباب یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اس طویل مضمون،
میں فقط اہل سنت کی بات کیوں کی گئی؟ جواب سادہ ہے، گلگت بلتستان میں دیگر برادر کمیونٹیز ،تمام شعبہ ہائے زندگی میں منظم و مربوط ہیں، لہٰذا اگر اہل سنت عوام بھی مربوط بنیادوں پر منظم ہو جائیں تو یہاں توازن برقرار رہے گا۔ کیونکہ عدم توازن کے باعث ہی زندگی کے مختلف شعبوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور سماجی و معاشرتی زندگی میں افراتفری پھیلتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button